کتاب: سوئے منزل - صفحہ 180
ثُمَّ یُؤتٰی مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْہِ فَتَقُوْلُ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالصِّلۃِ وَالْمَعْرُوْفِ إِلَی النَّاسِ: مَا قِبَلِيْ مَدْخَلٌ، فَیُقَالُ لَہٗ: إِجْلِسْ فَیَجْلِسُ۔۔۔ الخ )) [1]
’’جب میت کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے (اور سوال و جواب کے لیے اس کی روح جسم میں لوٹائی جاتی ہے) اور وہ ابھی تک دفن کرکے واپس جانے والوں کے قد موں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے (تو منکر و نکیر سوال وجواب کے لیے پہنچ جاتے ہیں ) لہٰذا اگر فوت ہونے والا شخص مؤمن اور نیک ہوتا ہے تو (اعمالِ صالحہ) نماز اس کے سر کی جانب کھڑی ہو جاتی ہے، روزہ دائیں جانب اور زکات بائیں جانب اور باقی افعالِ خیر، مثلا: صدقہ، صلہ رحمی اور لوگوں کے سا تھ حسنِ سلوک وغیرہ اس کے پاؤں کی طرف ہوتے ہیں- جب (منکر و نکیر) سر کی طرف سے اس کے پاس آنا چاہتے ہیں تو نماز کہتی ہے: اِدھر سے کوئی راستہ نہیں ہے، پھر وہ دائیں طرف سے آنا چاہتے ہیں تو روزہ کہتا ہے: اس جانب سے کوئی راستہ نہیں ہے، پھر بائیں طرف سے آنے کی کوشش کرتے ہیں تو زکات کہتی ہے: ادھر سے نہیں جا سکتے ہو، پھر وہ پاؤں کی جانب سے کوشش کرتے ہیں تو باقی افعالِ خیر، مثلاً: صدقہ، صلہ رحمی اور لوگوں کے سا تھ حسنِ سلوک وغیرہ روک دیتے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے کہ بیٹھ جاؤ تو وہ اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔‘‘
اُس کے سامنے سورج آتا ہے اور وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے سورج غروب ہی ہونے والا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے: جو شخص تمھاری طرف مبعوث کیا گیا تھا، تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اور اس کے متعلق تم کیا گواہی دیتے ہو؟ وہ کہتا
[1] صحیح ابن حبان (۳۱۱۳) حسن.