کتاب: سوئے منزل - صفحہ 18
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حرفِ آغاز
میری انتہائے نگارش یہی ہے تیرے نام سے ابتدا کر رہا ہوں
قارئینِ کرام! فکرِ آخرت وہ اہم موضوع ہے، جس سے کوئی شخص مستغنی نہیں ہے، کیوں کہ دنیا مسافرانِ عدم کے لیے ایک سرائے فانی اور عارضی اقامت گاہ ہے، جہاں پہ آنے اور جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور رخصت ہونے والوں کو ان کے اقربا و احباب یہی کہتے ہوئے الوداع کرتے ہیں : ’’إِنَّا إِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ‘‘
موت سے کس کو رستگاری ہے آج ان کی کل ہماری باری ہے
جب ہماری صورتِ حال اسی طرح کی ہے تو پھر مسافر کو ہمیشہ رختِ سفر باندھ کر مستعد رہنا چاہیے۔ اسی فکر کو اجاگر کرنے اور فرمانِ الٰہی کے پیشِ نظر کہ
﴿ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ [الذاریات: ۵۵]
’’اور نصیحت کرتے رہو، کیوں کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘
اپنی تذکیر اور احباب کی یاددہانی کے لیے زیرِ نظر سطور ترتیب دی ہیں اور ان کی وساطت سے اپیلِ دعا کی غرض سے اپنے مسلمان بہن بھائیوں تک رسائی کی کوشش کی ہے۔
اس کتابچے کی وجۂ تالیف دراصل یہ ہے کہ جب برادرِ مکرم حاجی زبیر احمد بن مولانا عبد القادر ندوی رحمہما اللہ (۲۵؍ مارچ ۲۰۰۵ء) کو کار کے حادثے میں وفات پا گئے تو میں نے بذریعہ ٹیلی فون تو حضرت ندوی صاحب رحمہ اللہ سے تعزیت کی، لیکن ان کی خدمت میں ایک مفصل تعزیت نامہ ارسال کرنے کا ارادہ تھا، جس سے مقصود اس عظیم