کتاب: سوئے منزل - صفحہ 171
خاک کے تودے اور ویرانے میں موجود مٹی کے ڈھیروں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کا طول و عرض کتنا ہے؟ ان میں سہولیات کس قدر میسر ہیں ؟ روشنی کا انتظام کیا ہے؟ آرام کے لیے بستر کیسا ہے؟ کیوں کہ ہم نے اپنے اقربا و احباب کو یہاں بسانا ہے، اور پھر خود بھی ……۔ قبر کی تیاری کے لیے گورکن آگیا اور اس نے میت کے جسم کے طول و عرض کی پیمایش لینا شروع کر دی، تاکہ اس کے مطابق قبر کھودی جائے۔ اللہ اکبر! ایکڑوں اور مربعوں کے بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہنے والا اب مرلوں سے بھی گیا اور بات فٹوں اور میٹروں تک آ پہنچی ہے۔ یہ عالیشان بنگلے وہاں کام کے نہیں ہیں دو گز زمیں کا ٹکڑا، چھوٹا سا تیرا گھر ہے قبر کھودی جا رہی ہے: مسلمانوں کے ہاں قبر کھودنے کے دو طریقے معروف ہیں ، جو کہ قبر کی زمین کے پیشِ نظر اختیار کیے جاتے ہیں : 1 (لحد) یعنی بغلی والی قبر یہ عموماً ان علاقوں میں بنائی جاتی ہے، جہاں زمین ٹھوس اور اس کی کھدائی آسان ہو۔ 2 (شق) صندوقی قبر یہ ان علاقوں میں بنائی جاتی ہے، جہاں زمین اتنی ٹھوس نہ ہو اور لحد بنانے سے اس کے گر جانے کا خدشہ ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ دونوں طریقے رائج تھے۔ مکہ معظمہ کی سر زمین چوں کہ پتھریلی اور سنگریزوں والی تھی، اس لیے اہلِ مکہ (شق) یعنی سیدھا گڑھا کھود کر صندوقی طرز کی قبر بناتے تھے اور مدینہ طیبہ کی سر زمین ٹھوس اور نرم تھی، لہٰذا اہلِ مدینہ (لحد) یعنی بغلی والی قبر بنایا کرتے تھے اور آج تک بھی ان کے ہاں یہی طریقہ مروج