کتاب: سوئے منزل - صفحہ 168
لاَ دَارَ لِلْمَرْئِ بَعْدَ الْمَوْتِ یَسْکُنُہَا
إِلاَّ الَّتِيْ کَانَ قَبْلَ الْمَوْتِ یَبْنِیْہَا
فَإِنْ بَنَاہَا بِخَیْرٍ طَابَ مَسْکَنُہُ
وَإِنْ بَنَاہَا بِشَرٍّ خَابَ بَانِیْہَا
’’پسِ مرگ ہر کسی کا مسکن اس کا وہی گھر ہو گا جو اس نے زندگی میں اپنے لیے تعمیر کیا ہوگا اگر تو اس کی تعمیر نیک اعمال سے کی ہوگی تو اس پرآسایش مسکن اور راحت کدے کے کیا ہی کہنے! اور اگر اعمالِ بد کی اینٹوں سے تعمیر کیا ہو گا تو اس رلا دینے والی بدبختی پہ صد افسوس۔‘‘
اس مکان کانام قبر اور یہ بستی شہرِ خموشاں ہے۔
قبر کیا ہے؟
دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے
طے کر رہا جو تو، دو دن کا یہ سفر ہے
جب سے بنی ہے دنیا لاکھوں کروڑوں آئے
باقی رہا نہ کوئی مٹی میں سب سمائے
اس بات کو نہ بھولو! سب کا یہی حشر ہے
دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے
یہ اونچے اونچے محل کچھ کام کے نہیں ہیں
یہ عالیشان بنگلے وہاں کام کے نہیں ہیں
دو گز زمیں کا ٹکڑا، چھوٹا سا تیرا گھر ہے
دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے