کتاب: سوئے منزل - صفحہ 166
ہے کہ جب تم میت کی نمازِ جنازہ ادا کرو تو خلوص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔ تو اس سے مراد نمازِ جنازہ میں پڑھی جانے والی ادعیہ ہیں- اور یہاں پہ حرفِ (فاء) تعقیب کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ اسی طرح ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( وَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَأَقِیْمُوا صُفُوْفَکُمْ )) ہے، یعنی جب نماز اداکرو تو صفیں سیدھی کرلیا کرو۔ اس میں بھی (( صَلَّیْتُمْ )) ماضی کا صیغہ اور پھر (فاء) ہے اور اس کے بعد (( أَقیموا )) صیغۂ امر ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نماز پڑھ کے فارغ ہو جاؤ تو بعد میں صفیں سیدھی کرو؟ ہرگز نہیں ، بلکہ اس کا مطلب تو دوران نماز میں صفوں کی درستی ہے اور اسی طرح دیگر کئی مثالیں ہیں- دوسرا (( إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوْا لَہٗ الدُّعَائَ )) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، تو کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دفن سے پہلے میت کی چارپائی کے گرد کھڑے ہوکر دعاکی تھی؟ کیا کسی صحیح حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر کیا حدیث پاک کا خود ساختہ مفہوم اور اس پر کسی مسئلے کی بنیاد رکھنا تحریفِ معنوی اور خلافِ سنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ لہٰذا نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دفن سے پہلے میت کی چارپائی کے گرد کھڑے ہوکر دعا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور ائمہ دین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ، بلکہ ایک نیا ایجاد شدہ طریقہ ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے، تاکہ سنت کی مخالفت اور بدعت کے ارتکاب سے بچا جاسکے، کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ )) [1] ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے فرمان (یعنی سنت) کے مطابق
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۱۴۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۵۹۰).