کتاب: سوئے منزل - صفحہ 164
(( إِنَّـمَــا الْأَعْـمَـالُ بِالــنِّیَّــاتِ )) [1] ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
لیکن نیت کیسے کی جائے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے چند امور قابلِ توجہ ہیں :
1 نیت کا مفہوم کیا ہے؟ ’’نیت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے: ’’إِرَادَۃُ الْقَلْبِ‘‘ یعنی دل کے ارادے کو نیت کہا جاتاہے۔ اور جب یہی ارادہ زبان پر آجائے تو اسے (قول) کہا جاتا ہے، نیت اور ارادہ نہیں کہلاتا۔
2 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ، یعنی تکبیرِ تحریمہ سے سلام تک سکھانے کے بعد فرمایا:
(( صَلُّــوْا کَمَــا رَأیْتُــمُوْنِـيْ اُصَلِّي )) [2]
’’(تم بعینہٖ اسی طرح) نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘
اور اسی طرح نمازِ جنازہ کا مکمل طریقہ اور اس کی دعائیں سب کچھ عربی زبان میں سکھایا، کیوں کہ عربی زبان مسلمانوں کی شرعی زبان ہے، یہ قرآن کی زبان ہے، یہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے۔ لیکن آپ ذخیرۂ احادیث پاک کی ورق گردانی کر لیں آپ کو کسی بھی نماز سے پہلے نیت کر نے کے الفاظ نہیں ملیں گے۔ اگر پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی طور پر نیت کرنے کا طریقہ سکھایا ہوتا توجس طرح باقی ساری نمازیں اور ان کے تمام اذکار عربی زبان میں احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں ، اسی طرح نیت جیسی اہم چیزکے الفاظ بھی عربی میں احادیث مبارکہ میں موجود ہوتے، کیوں کہ نماز کی زبان عربی ہے۔
آخرکیا وجہ ہے؟ کہ نمازی کی مادری زبان کوئی بھی ہو وہ ساری نماز تو عربی
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۵).
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۳۱).