کتاب: سوئے منزل - صفحہ 162
لِعَبْدٍ جَعَلَہُ اللّٰہُ مِفْتَاحاً لِلشَّرِّ مِغْلاَقاً لِلْخَیْرِ )) [1] ’’خیر و بھلائی کے مخازن اور ذخائر ہیں اور ان (خیر کے) خزانوں کی چابیاں ہیں- لہٰذا اس شخص کو مبارک ہو، جسے اللہ تعالیٰ نے خیر کی چابی اور برائی کا قفل اور تالا بنایا ہے۔ اور اس شخص کے لیے ہلاکت اور تباہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شر (برائی) کی چابی اور خیر و بھلائی کی راہ میں رکاوٹ بنا دیا ہے۔‘‘ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مُسْتَرِیْحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ، قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ! مَا الْمُسْتَرِیْحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْہُ؟ قَالَ: اَلْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ یَسْتَرِیْحُ مِنْْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَأَذَاہَا إِلَی رَحْمَۃِ اللّٰہ وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ یَسْتَرِیْحُ مِنْہُ الْعِبَادُ وَالْبِلاَدُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ )) [2] ’’یہ شخص راحت پانے والا یا راحت پہنچانے والا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! راحت پانے والے سے مراد کون، اور پہنچانے والے سے مراد کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندۂ مومن دنیا کی مصائب و تکا لیف سے نجات پاکر رحمتِ الٰہی کی آغوش میں راحت پاتا ہے اور فاسق و فاجر شخص (خس کم جہاں پاک) کی موت سے نباتات و حیوانات اور انسانی آبادیاں سکھ کا سا نس لیتی ہیں (یعنی وہ مر کر ان سب چیزوں کو راحت پہنچاتا ہے)۔
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۳۸) وحسنہ الألباني في صحیح الترغیب والترھیب، رقم الحدیث (۶۶). [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۱۴۷) مسلم، رقم الحدیث (۲۲۴۵).