کتاب: سوئے منزل - صفحہ 159
نوٹ: ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرنا اور پھر ہاتھ با ندھنا سنت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
’’أَنَّ النَّبِیَّ ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) کَانَ إِذَا صَلّٰی عَلَی جَنَازَۃٍ رَفَعَ یَدَیْہِ فِيْ کُلِّ تَکْبِیْرَۃٍ وَإِذَا انْصَرَفَ سَلَّمَ‘‘[1]
’’یعنی نبی اکرم جب نمازِ جنازہ ادا کرتے تو ہر تکبیر کے سا تھ ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور آخر میں سلام پھیرتے تھے۔‘‘
نمازِ جنازہ ادا ہو چکی، میت کے لیے مغفرت کی دعا ہو چکی، اللہ تعالیٰ مرنے والے کا اگلا جہان اچھا کرے۔ نیک آدمی تھا۔ ہرکسی سے مسکرا کے ملنا، سیدھی بات کرنا، ہرکسی کے بارے میں دل صاف رکھنا، اس کی خوبیاں تھیں ‘نمازوں کی پابندی کرنے والا تھا، اللہ سے ڈرنے والا تھا، والدین کا فرماں بردار، صلہ رحمی کرنے والا، بہن بھائیوں اور دوستوں کے کام آنے والا، بڑا ہی بھلا شخص تھا، اس نے کبھی کسی پر زیادتی نہیں کی، نہ ہی کبھی کسی کا حق مارا تھا، ایسے خیر خواہ اور مخلص لوگ کم ہی ملتے ہیں-اس کی وفات سے ایک عالم اداس اور غمزدہ ہے، یہ یاروں کا یار تھا۔کسی نے ویسے ہی نہیں کہا:
’’ماپے تینوں گھٹ رون گے۔۔۔ بہتے رون گے دلاں دے جانی۔‘‘ (پنجابی)
یعنی آپ کی وفات پر آپ کے والدین سے بھی زیادہ آپ کے جگری یار اور مخلص دوست روئیں گے۔ ہر طرف یہی تذکرے اور تبصرے ہو رہے ہیں ، یہ اہلِ زمین کی گواہی ہے، یہ حسین یادیں چھوڑکر جانے والے کا ذکرِ خیر ہے: ع
اے ہم نفسان محفل ما رفتید و لے نہ از دل ما
ایسا ہی محبوب خلائق اور جان محافل علم و ادب کا حال ہوتا ہے:
[1] العلل للدارقطني، رقم الحدیث (۲۹۰۸) اس کی سند حسن ہے.