کتاب: سوئے منزل - صفحہ 152
(( ثَلاَثَۃٌ لاَ یَقْبَلُ اللّٰہ مِنْہُمْ صَلاَ ۃً وَلاَ تَصْعَدُ إِلَی السَّمَائِ وَلاَ تُجَاوِزُ رُؤُسَہُمْ: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَہُمْ لَہُ کَارِہُوْنَ، وَرَجُلٌ صَلَّی عَلَی جَنَازَۃٍ وَلَمْ یُؤْمَرْ، وَامْرَأَۃٌ دَعَاہَا زَوْجُہَا مِنَ الْلَیْلِ فَأَبَتْ عَلَیْہِ )) [1] ’’تین قسم کے لوگوں کی نمازاللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا اور نہ ان کی نماز اوپر آسمان کی طرف بلند ہوتی، بلکہ ان کے سروں سے اوپر بھی نہیں جاتی: 1 وہ امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں (یعنی اس کے عقیدے میں خلل یا کسی اور معقول سبب کی بنیاد پر)۔ 2وہ شخص جو بغیر اجازت کے کسی کی نمازِ جنازہ پڑھائے۔ 3وہ بیوی جس کا شوہر اسے رات میں بلائے اور وہ اس کے پاس جانے سے انکار کر دے۔‘‘ حضراتِ گرامی! مذکورہ حدیث پاک پر اگر ٹھنڈے دل سے غور کرلیا جائے توسیاسی جنازہ بازی یا نمود و نمایش اور اخبارات کی زینت بننے یا خبروں میں تشہیر کی غرض سے نمازِ جنازہ کی امامت پر اصرار کرنے والوں کی کافی حد تک اصلاح ہو سکتی ہے۔ ایسے مواقع پر سیاست خواہ مذہبی بنیادوں پر ہو یا کسی اور بنیادپر افسوس ناک ہے۔ صدحیف! آج کل دینی اقدار میں کمی اور فکرِ آخرت سے کوتاہ نظری نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ احباب کی میت سامنے رکھ کر بھی لوگ اپنی سیاست چمکانے اور اپنی جماعت یا گروہ کی تشہیر اور اپنی شخصیت کا لوہا منوانے کے چکر میں ہوتے ہیں- میں یہ بات سمجھنے سے قاصر رہا ہوں کہ جس کے بارے میں فوت ہونے والا وصیت کرے یا میت کے لواحقین جس سے نمازِ جنازہ پڑھانے کی اپیل کریں ، اگر وہ صحیح العقیدہ ہے تو ٹھیک ہے۔ لیکن از خود نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے اصرار کرنا یا
[1] السلسلۃ الصحیحۃ للألباني، رقم الحدیث (۶۵۰).