کتاب: سوئے منزل - صفحہ 151
نمازِ جنازہ کی امامت:
جنازے میں امامت کا حق دار سب سے پہلے (وصی) ہے، یعنی جس کے بارے میں میت وصیت کرے کہ میری نمازِ جنازہ فلاں شخص پڑھائے۔
جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری نمازِ جنازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پڑھائیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ پڑھائیں اور اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پڑھائیں گے۔ اگر وصیت نہ کی ہو یا جس کے بارے میں وصیت کی گئی ہو وہ میسر نہ ہو تو پھر حاکمِ وقت یا اس علاقے کا امام نمازِ جنازہ پڑھائے۔ جیسا کہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی وفات کے وقت مدینے کے گورنر سعید بن العاص کو نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا تھا: ’’تَقَدَّمْ لَوْ لاَ أَنَّہَا سُنَّۃٌ مَا قَدَّمْتُکَ‘‘ اگریہ سنت نہ ہوتی تو میں کبھی آپ کو امامت کے لیے آگے نہ بڑھاتا۔ (طبرانی و حاکم) اور مسلم شریف میں ہے:
(( لاَ یَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِيْ سُلْطَانِہِ ))
یعنی کوئی شخص دوسرے کی جائے امامت میں اس کی اجازت کے بغیرامامت نہ کروائے۔
اور اگر امیر یا امام موجود نہ ہوں یاکسی وجہ سے وہ امامت کے اہل نہ ہوں تو پھر میت کے اولیا، یعنی قریبی رشتے دار اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں ، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰہِ ﴾ [الأنفال: ۷۵]
اگر اقرباء میں سے کوئی اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ شخص نمازِ جنازہ پڑھائے جسے میت کے اقربا اجازت دیں- چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: