کتاب: سوئے منزل - صفحہ 150
الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْہٗ دَارًا خَیْرًا مِّنْ دَارِہٖ، وَأَھْلاً خَیْرًا مِّنْ أَھْلِہٖ وَزَوْجًا خَیْرًا مِّنْ زَوْجِہٖ، وَأَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَأَعِذْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ‘‘ ’’یا الٰہی! اس کے گناہ بخش دے اور اس پر رحم کر اور اس کو عافیت دے اور اس کو معاف کردے، اور اس کی اچھی مہمانی کر اور اس کی قبر کو کشادہ کردے، اور اس(کے گناہوں ) کو (بخش کے) پانی، برف اور اَولوں سے دھو ڈال، اور اس کو گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسا کہ سفید کپڑے کو تو میل سے صاف کرتا ہے، اور اس کو اس کے دنیا کے گھر سے بہتر گھر اور اس کے یہاں کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کے یہاں کے جوڑے سے بہتر جوڑا، وہاں (آخرت میں ) عطا کر، اور اس کو جنت میں داخل کر اور اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کے عذاب سے پناہ دے۔‘‘ عوف بن مالک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ یہ دعا سن کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! یہ جنازہ میرا ہوتا۔‘‘[1] آخر دل میں یہ تمنا اور خواہش کیوں انگڑائی نہ لیتی کہ ارحم الراحمین، رب غفور و رحیم کی بارگاہِ لطف و عنایت میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کسی امتی کے لیے مغفرت اور بخشش کی دعا کریں ؟ اس سے بڑھ کر سعادت مندی اور کیا ہو گی؟یہ سعادتیں اور قسمتیں ، یہ بلند اقبالی اور خوش نصیبی۔ اللہ اکبر! ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲۷۶).