کتاب: سوئے منزل - صفحہ 148
(( مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ یَمُوْتُ فَیَقُوْمَ عَلَی جَنَازَتِہِ أَرْبَعُوْنَ لاَ یُشْرِکُوْنَ بِا للَّہِ شَیْئًا إِلَّا شَفَّعَھُمُ اللّٰہ فِیْہِ )) [1] ’’جس مسلمان میت کی نمازِ جنازہ چالیس ایسے مسلمان ادا کریں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، تو اللہ تعالیٰ اس میت کے حق میں ان کی سفارش کو ضرور قبول فرماتا ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا مِنْ مَیِّتٍ یُصَلِّيْ عَلَیْہِ اُمَّۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَبْلُغُوْنَ مِئَۃً کُلُّہُمْ یَشْفَعُوْنَ لَہُ إِلَّا شُفِّعُوْا فِیْہِ )) [2] ’’جس میت کی نمازِ جنازہ اُمتِ مسلمہ کے سو افراد ادا کر کے اس کی شفاعت کرتے ہیں تو ان کی سفارش اس میت کے حق میں قبول کر لی جاتی ہے۔‘‘ محترم قارئین! ذرا حدیث پاک کے الفاظ (( یَشْفَعُوْنَ، شَفَّعَ، شُفِّعُوْا )) پر غور فرمائیے۔ یہ تمام الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ نمازِ جنازہ ادا کرنے والے میت کے سفارشی بن کر آئے ہیں-ان کی سفارش کی بہت اہمیت ہے، لہٰذا انھیں چاہیے کہ خود کو بارگاہِ الٰہی میں سفارش کے قابل بنائیں اور اس دربارِ عالی میں سفارش کرنے کے آداب سیکھیں- حدیث پاک سے اظہر من الشمس ہے کہ میت کے حق میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی سفارش قبول کرتاہے جن میں دو خوبیاں پائی جائیں ، ایک تو وہ مومن و موحد ہوں: ’’لاَ یُشْرِکُوْنَ بِا للَّہِ شَیْئًا‘‘ یعنی ان کا عقیدہ شرکیہ نہ ہو اور دوسرا وہ سفارش بھی
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث ( ۲۲۴۱). [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث ( ۲۲۴۱).