کتاب: سوئے منزل - صفحہ 135
لیے کہ تمھاری میت (یعنی مسلمان میت) پلید نہیں ہے، لہٰذا تمھارے لیے ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔‘‘ دونوں احادیث مبارکہ میں کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ دونوں احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ غسل دینے والا اگر ضرورت محسوس کرے تو غسل کرلے ورنہ اس کے لیے وضو کرنا کافی ہو گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : (( کُنَّا نُغَسِّلُ الْمَیِّتَ فَمِنَّا مَنْ یَغْتَسِلُ وَمِنَّا مَنْ لاَّ یَغْتَسِلُ )) [1] ’’یعنی ہم میت کو غسل دیا کرتے تھے اور پھر ہم میں سے کوئی غسل کرلیا کرتا تھا اور کوئی نہیں کیا کرتا تھا۔‘‘ تکفینِ میت: کفن کیا ہے؟ یہ وہی لباس ہے جس کے بارے میں کبھی نام نہاد بہادر سر پہ سفید کپڑے باندھ کر جلوس نکالا کرتے ہیں اور خبر یں چھپتی ہیں کہ ’’کفن پوش‘‘ جلوس یا پھر کوئی جان کی بازی لگانے والا کہتا ہے کہ ’’بھئی! ہم تو سر پر کفن با ندھ کر نکلے ہیں-‘‘ یہ سرپر کیوں باندھتے ہیں ، پہنتے کیوں نہیں ؟ اس لیے کہ سرپر تو ہر کوئی خود باندھ لیتا ہے، لیکن پہناتے دوسرے لوگ ہیں-دوسرے لفظوں میں کفن سرپر باندھ کر بڑھک مارنا آسان ہے، لیکن اس کا پہننا بہت مشکل ہے، کیوں کہ یہ زندوں کا نہیں مردوں کا لباس ہے، اسے پہننے کے لیے جان دینا پڑتی ہے۔ غسل ہو چکا، اب میت کو اُس کا لباس زیبِ تن کروا دیجیے! تاکہ مہمان اگلی منزل کو روانہ ہونے کے لیے تیار ہو جائے۔ اسی لباس کا نام کفن ہے۔ یہ لباس کیسا ہونا چاہیے؟ میت کا کفن سادہ ہونا چاہیے اور سفید ہو تو افضل ہے۔ اس امت کے مرد
[1] سنن الدارقطني (۲/۷۲).