کتاب: سوئے منزل - صفحہ 134
ڈھانپا نہیں جائے گا اور اسے خوشبو بھی نہیں لگائی جائے گی۔ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتے ہوئے اٹھایا جائے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ نیز میت اگر عورت ہو اور وہ حالتِ احرام میں ہو اسے بھی خوشبو نہیں لگائی جائے گی۔ اگر بہ امرِ مجبوری میت کو غسل دینا ممکن نہ ہو تو اسے تیمم بھی کروایا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں یہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کرے گا۔ میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کا حکم: میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر میت کو غسل دینے کے بعد خود بھی غسل کرلے تو بہتر ہے، لیکن اگر غسل نہ کرنا چاہے تو صرف وضو کرلینا ہی کافی ہے، کیوں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ )) [1] یعنی جوشخص میت کو غسل دے اسے چاہیے کہ وہ خود بھی غسل کرے۔ حدیث پاک میں صیغۂ امر (( فَلْیَغْتَسِل )) بظاہر وجوب پر دلالت کرتا ہے، لیکن دیگر روایات میں ایسے قرائن موجود ہیں ، جو اس وجوب کو استحباب میں تبدیل کرتے ہیں- مثال کے طور پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَیْسَ عَلَیْکُمْ فِيْ غُسْلِ مَیِّتِکُمْ غُسْلٌ، إِذَا غَسَلْتُمُوْہٗ، فَإِنَّ مَیِّتَکُمْ لَیْسَ بِنَجَسٍ فَحَسْبُکُمْ أَنْ تَغْسِلُوا أَیْدِیَکُمْ )) [2] ’’جب تم اپنی کسی میت کو غسل دو تو تم پر غسل کرنا واجب نہیں ہے، اس
[1] سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، رقم الحدیث (۱۴۶۳). [2] صحیح الجامع الصغیر، رقم الحدیث (۵۴۰۸).