کتاب: سوئے منزل - صفحہ 127
دی جائے یا پھر جن کے بارے میں میت نے وصیت کی ہو کہ میرے مرنے کے بعد فلاں شخص مجھے غسل دے، جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ مجھے میری بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا غسل دیں ، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ انھیں ابن سیرین رحمہ اللہ غسل دیں- 5 مرد کی میت کو مرد حضرات غسل دیں اور عورت کی میت کو خواتین غسل دیں سوائے زوجین (خاوند اور بیوی) کے کہ وہ ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں- 6 بہتر ہے کہ غسل کے لیے لوگوں کی تعداد دو ہو، یعنی ایک غسل دینے والا اور دوسرا اس کا معاون یا زیادہ سے زیادہ تین افراد ہوں-یہ ستر اور پردے کا معاملہ ہے، اس لیے ہر کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ 7 میت کو غسل دینے کی جگہ پاک اور صاف ہونی چاہیے۔ 8 بہتر ہے غسل کی جگہ چھت والی ہو، جیسا کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ غسل کے وقت میت اور آسمان کے مابین پردہ ہو نا چاہیے۔ میت کو غسل دینے سے پہلے: میت کو غسل دینے سے قبل چند امور کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے: 1 میت کو ایسی جگہ (چارپائی یا تختے) پر لٹایا جائے جو زمین سے قدرے اونچا ہو، تاکہ غسل کا پانی نیچے بہہ جائے اور جسم سے خارج ہونے والے فضلات جسم کو آلودہ نہ کریں- 2 میت کے اوپر ستر پوشی کے لیے کپڑا ڈالا جائے اور بالخصوص مرد کے لیے ناف سے لے گھٹنوں تک کا حصہ ڈھانپنا واجب ہے۔اور عورت کے لیے کندھوں سے لے کر پاؤں تک۔ 3 میت کے کپڑے اتاردیے جائیں اور اگرآسانی کے سا تھ اتارنا ممکن نہ ہو توقینچی