کتاب: سوئے منزل - صفحہ 122
اعلانِ وفات: کسی مسلمان کی وفات کی خبر کا حکم اس کے اغراض و مقاصد کے تابع ہے۔ اگر تو وفات کی اطلاع دینے کا مقصد میت کے تعلق داروں کو اس کی وفات کی اطلاع دینا یا لوگوں کو نمازِ جنازہ کے وقت سے آگاہ کرنا ہے، تاکہ زیادہ لوگ شرکت کر سکیں ، جن لوگوں کا میت کے سا تھ لین دین کا معاملہ ہو، وہ اس سے آگاہ ہو جائیں اور اپنے معاملات طے کرلیں یا میت سے کسی پر زیادتی ہوئی ہو تو وہ یہ خبر سن کر میت کو معاف کر دے تو مذکورہ اغراض کے پیش نظر کسی کی وفات کی خبر بذریعہ ٹیلی فون، سوشل میڈیا، اخبار، یا مسجد کے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلان کرکے لوگوں کومطلع کرنا ہو تو یہ (نعی) جائز ہے، لیکن اگر خبر یا اشتہار یا اعلان کا مقصد فخر و مباہات اور میت کی بڑائی اور خوبیاں بیان کرنا یا بطور نوحہ یا زمانۂ جاہلیت کے طرز پر جزع و فزع کے طور پر ہو تو ایسی (نعی) شریعت میں منع ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’حدیث میں جو نعی کی ممانعت آئی ہے اس سے مطلق موت کی خبردینا مراد نہیں ہے۔بلکہ اس طرح پر موت کی خبردینا مرادہے جس طرح کہ زمانۂ جا ہلیت کا دستور تھا۔‘‘[1] دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے: موت کے بعد اگلا مرحلہ اب اس جسدِ خاکی کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔باوجود انتہائی انس و محبت کے کوئی بھی اس میت کو مہمان بنانے کے لیے تیار نہیں ، جو لوگ ان کی ملاقات کے بیحد مشتاق رہا کرتے اور لمحہ بھر بھی ان کی فرقت گوارا نہیں کیا کرتے تھے، نہ رفیقۂ حیات کے منہ سے نکلا، نہ اولاد نے تمناکی، اور نہ یارانِ با وفا نے خواہش کا اظہار کیا کہ ان کو ویرانے میں اور قبر کی تنہائی میں کیوں چھوڑنے جا رہے
[1] مقالاتِ محدث مبارکپوری (ص: ۲۳).