کتاب: سوئے منزل - صفحہ 120
جو شے ہے فنا، اسے بقا سمجھا ہے جو چیز ہے کم، اسے سوا سمجھا ہے
ہے بحرِ جہاں میں عمر مانند حُباب غافل اس زندگی کو کیا سمجھا ہے
قارئینِ کرام! آپ نے کبھی غور کیا؟ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مال و دولت لیے تین لفظ استعما ل کیے ہیں : 1 ’’دَوْلَۃٌ‘‘ 2 ’’ذَھَبٌ‘‘ (سونا) 3 ’’فِضَّۃٌ‘‘ (چاندی) دولت کے معنی ہیں گھومنے اور چکر لگانے والی چیز، یعنی آج اس کے ہاں کل اس کے پاس۔ اور ’’ذَھَبٌ‘‘ ذِھاب سے ہے چلی جانے والی چیز اور ’’فِضَّۃٌ‘‘ بکھر جانے والی چیز۔ تینوں الفاظ کا مشترکہ مفہوم ہے کہ اسے ثبات و قرار نہیں ‘آج اس کے پاس ہے تو کل کسی دوسرے کے پاس۔ آنکھیں بندہوتے ہی ورثا بٹوارہ شروع کردیتے ہیں اور جائیداد مختلف حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
ذَوُوْ الْمِیْرَاثِ یَقْتَسِمُوْنَ مَالِيْ وَلاَ یَأْلُوْنَ أَنْ جَحَدُوا دُیُوْنِيْ
فَقَدْ أَخَذُوْا سِہَامَہُمْ وَ عَاشُوْا فَیَا لِلَّہِ أَسْرَعَ مَا نَسَوْنِيْ
’’میرے ورثا میرا مال آپس میں تقسیم کر لیں گے، اور میری کمائی سے میرا قرض چکانے سے بھی انکار کردیں گے۔ میراث میں اپنا اپنا حصہ لے اڑیں گے اور مجھے کوئی یاد بھی نہیں کرے گا۔‘‘
اس دنیائے فانی سے جو منہ موڑ گیا ہے
برسوں سے جو رشتے تھے سبھی توڑ گیا ہے
ہے کھوج فرشتوں کو کہ کیا ساتھ ہے لایا
اور فکر عزیزوں کو ہے، کیا چھوڑ گیا ہے؟
اسی لیے تو ہمیں موت سے پہلے پہلے صدقہ و خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ