کتاب: سوئے منزل - صفحہ 118
یعنی جو لوگ حالتِ اِحتضار میں میت کے پاس موجود ہوں انھیں چاہیے کہ وہ اس کی آنکھیں یا منہ اگر کھلا ہو تو بند کردیں اور اس کے اعضا کو سیدھا کر دیں اور اگر ممکن ہو تو چہرے کا میلان قبلے کی طرف کردیں اور میت کو کپڑے سے ڈھانپ دیں- ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : ’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حِیْنَ تُوُفِّيَ سُجِّيَ بِبُرْدٍحَبِرَۃٍ‘‘[1] ’’جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر کو دھاری دار چادر سے ڈھا نپا گیا تھا۔‘‘ یہ سب کچھ ہمارا ہے: میت کی جیب سے پرس نکال لیا گیا، ہاتھ سے قیمتی گھڑی اتار لی گئی، موبائل چھین لیا گیا، گاڑی کی چابی قبضے میں لے لی گئی۔ ارے بھئی! یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ سب کچھ انہی کا تو ہے، ان سے کیوں چھین رہے ہو؟ نہیں ، نہیں صاحب! یہ ان کا نہیں ، اب یہ ہمارا ہے۔انھوں نے جس قدر عیش و عشرت کرنی تھی بس ہو چکی، اب تو یہ بنگلہ اور کو ٹھی بھی ہماری ہے۔ ان کو یہاں سے بھی بے دخل ہونا پڑے گا۔کیوں بھئی! اس قدر بے رخی اور جفا کیوں ؟۔۔جی، اس لیے کہ دنیا میں آتے ہو ئے یہ کیا ساتھ لائے تھے جو کہ واپس لے کر جائیں ؟ یہاں کا ساز و سامان یہیں پہ رہے گا۔ آپ نے سنا نہیں : ’’سکندر جب دنیا سے چلا تو دونوں ہاتھ خالی تھے۔‘‘ وائے افسوس! اسی مال و منا ل کے لیے اپنا سکون و آرام برباد کیا اور نیندیں اچاٹ کر رکھی تھیں اور ہمیں نماز کے لیے بھی فرصت نہیں تھی؟ مال میں کمی کے خوف سے صدقہ و خیرات سے دل گھبراتا تھا، ہم نے تو دولتِ دنیا سے بہت پیار کیا اور ساری عمر اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے گزار دی، لیکن اس نے ہمارے سا تھ کیا کیا؟
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۱۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۴۲).