کتاب: سوئے منزل - صفحہ 116
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ (19) وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ (20) وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ (21) وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللّٰہَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ﴾ [الفاطر: ۱۹۔ ۲۲] ’’بینا اور نابینا برابر نہیں- اور نہ اندھیرے اور اجالا برابر ہیں- اور نہ ہی دھوپ اور چھاؤں برابر ہیں- (اسی طرح) زندہ اور فوت شدگان بھی برابر نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے، لیکن (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے۔‘‘ یہ فوت ہونے والے زور آور جوان اور طاقتور پہلوان، یہ فرماں روا یا حکمران الغرض کوئی بھی ہو، کیایہ اپنی آنکھیں بھی نہیں بند کر سکتے؟ ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتے؟ نہیں ، ہرگز نہیں- اب انھیں غسل بھی کوئی اور دے گا یہ خود نہا بھی نہیں سکتے، کفن بھی دوسرے لوگ ہی پہنا ئیں گے، اب یہ اپنا لباس بھی زیب تن نہیں کر سکتے، قبرستان تک بھی ان کو چارپائی پہ لٹا کر لے جایا جائے گا، یہ خود اٹھ بھی نہیں سکتے، کہیں جا بھی نہیں سکتے۔ کیوں بھئی! پہلے تو یہ سب کام خود کیا کرتے تھے؟ وہ اس لیے کہ پہلے یہ زندہ تھے‘ اب ان پر موت واقع ہو چکی ہے۔ اب کسی کا ہاتھ بٹانا تو دور کی بات ہے، اب تو یہ اپنے کام بھی خود نہیں کرسکتے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ صلاحتیں سلب کرلی ہیں- اسی کا نام تو موت ہے۔ اب اس مرنے والے کی بیوی بیوہ کہلائی گی اور اس کے بچے یتیم کہلائیں گے۔ ان کی جائیداد تقسیم کر لی جائے گی، کیوں کہ اب یہ کبھی اس جہان میں واپس نہیں آئیں گے، اس لیے کہ یہ فوت ہو چکے ہیں- آیا نہیں پلٹ کے کوئی بھی گیا ہوا میں خود ہی جاؤں گا اب انھیں ڈھونڈتا ہوا