کتاب: سوئے منزل - صفحہ 115
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیْضَ أَوْ الْمَیِّتَ فَقُوْلُوا خَیْرًا فَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ یُؤَمِّنُوْنَ عَلَی مَا تَقُوْلُوْنَ )) [1]
’’جب تم مریض یا میت کے پاس جاؤ تو زبان سے اچھی بات کہو، کیوں کہ فرشتے تمھاری کہی ہوئی باتوں پر آمین کہتے ہیں-‘‘
7 تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے۔
8 میت کے ذمے قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
9 میت کے سا تھ کسی کو ناراضی یا گلہ و شکوہ ہو یا مرنے والے سے زندگی میں کسی کے سا تھ زیادتی ہوئی ہو تو اللہ کی رضا کے لیے اسے معاف کردے۔
10 مرنے والے کی برائیاں بیان کرنے سے گریز کرنا چا ہیے:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لاَ تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّہْمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلٰی مَا قَدَّمُوْا )) [2]
’’فوت شد گان کو برا مت کہو، کیوں کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں-‘‘
زندہ اور فوت شدگان برابر نہیں :
روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ ’’إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘ ان کی آنکھیں بند کر دیجیے! ان کے اعضاء درست کر دیجیے! کیوں بھئی! یہ تمام کام یہ خود نہیں کر سکتے؟
نہیں بھئی! اب یہ فوت ہو گئے ہیں ، اور ’’ زندہ اور فوت شدہ برابر نہیں ہوتے‘‘ اب یہ نہ بول سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں اور نہ اٹھ سکتے ہیں اور نہ بیٹھ سکتے ہیں-
[1] صحیح مسلم، باب ما یقال عند المریض أو المیت، رقم الحدیث (۲۱۶۸).
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۹۳).