کتاب: سوئے منزل - صفحہ 112
الْخِيَاطِ ﴾ [الأعراف: ۴۰] ’’ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، اور وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے: ’’اس کی کتاب سجین (سب سے نچلی زمین) میں لکھ دو۔‘‘ پھر کہا جاتا ہے: ’’اسے زمین کی طرف لوٹا دو‘‘ کیوں کہ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں نے انھیں اسی سے پیدا کیا ہے، اور میں انھیں اسی میں لوٹاؤں گا اور ایک بار پھر انھیں اسی سے اٹھاؤں گا، تو اس کی روح کو آسمان سے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
﴿ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللّٰہِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ﴾ [الحج: ۳۱]
’’اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گرپڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز مقام پر پھینک دے گی۔‘‘[1]
مومن و موحد شخص کی روح، روح و ریحان کی طرف پرواز کرگئی۔ زہے نصیب!
نشانِ مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست
یہ حسنِ خاتمہ اور یہ قابلِ رشک موت ہے کہ دمِ واپسیں کلمۂ توحید وردِ زبان تھا۔ اسی لیے تو مومن موت سے نہیں گھبراتا، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
[1] مسند أحمد (۴/ ۳۸۷، رقم الحدیث: ۱۸۵۵۷) صحیح الجامع للألباني، رقم الحدیث (۱۶۷۶).