کتاب: سوئے منزل - صفحہ 109
سے پانی کا قطرہ بآسانی بہہ نکلتا ہے، پھر وہ (فرشتہ) اسے وصول کر لیتا ہے۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ جب اس کی روح نکلتی ہے تو زمین و آسمان کے درمیان اور اسی طرح آسمان پر جتنے فرشتے ہوتے ہیں سب اس کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں ، اور آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں ، اور ہر دروازے پر متعین فرشتے اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے ہیں کہ اس کی روح کو ان کے راستے سے اوپر لے جایا جائے)۔ پھر جب ملک الموت اس کی روح قبض کرلیتے ہیں تو وہ فرشتے جو اس کے لیے جنت سے کفن اور خوشبو لے کر آتے ہیں اور دور بیٹھے ہوتے ہیں وہ پلک جھپکتے ہی اس کے پاس آ جاتے ہیں اور ملک الموت سے اس کی روح کو لے لیتے اور اسے جنت کے کفن اور خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں-اور یہی معنی ہے اللہ کے اس فرمان کا: ﴿ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾ [الأنعام: ۶۱] یعنی ’’اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ ذرا سی بھی کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ اور اس کی روح سے زمین پر پائی جانے والی سب سے اچھی کستوری جیسی خوشبو پھوٹ نکلتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ اسے لے کر (آسمان کی طرف) اوپر جاتے ہیں ، اور وہ جتنے فرشتوں کے پاس سے گزرتے ہیں ، سب کہتے ہیں : یہ کتنی پاکیزہ روح ہے! تو وہ جواب دیتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے، اور وہ اسے سب سے اچھے نام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس کا دنیا میں تذکرہ کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ اسے لے کر آسمانِ دنیا (پہلے آسمان) پر پہنچ جاتے ہیں ، تو فرشتے اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں ، چنانچہ ان