کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 99
یہ دعا حضرت نوح علیہ السلام نے تاریخ انسانی کے مشہور واقعہ ’’طوفانِ نوح‘‘ کے موقع پر اپنی کشتی میں سوار ہوتے وقت کی تھی۔ اس بنا پر یہ دعا کی جاسکتی ہے، البتہ اس دعا کی فضیلت کے بارے میں مسند ابی یعلی اورعمل الیوم واللیلۃ لابن السنی کے حوالے سے جو حدیث بیان کی جاتی ہے جس میں مذکور ہے: (( اَمَانٌ لِأُمَّتِيْ مِنَ الْغَرَقِ اِذَا رَکِبُوْا أَنْ یَّقُوْلُوْا … )) [1] ’’میری امت کے لیے غرق ہونے سے تحفظ اس میں ہے کہ جب وہ سوار ہونے لگیں تو یہ دعا پڑھ لیں …‘‘ یہ روایت ضعیف اور من گھڑت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صیغۂ تمریض سے نقل کر کے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ علّامہ البانی نے اس روایت کو ’’ضعیف جدا بل ھو موضوع‘‘ قرار دیا ہے کہ یہ سخت ضعیف بلکہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ (الکلم الطیب لابن تیمیۃ مع تحقیق الألباني، ص: ۹۷)
[1] یہ حدیث حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ حدیثِ حسین کو ابن عدی (۷/ ۲۶۵۵، ۲۶۵۶) ابن السنی (۵۰۱) طبرانی نے ’’الدعاء‘‘ (۸۰۳) میں اور ابو یعلی (۶۷۸۱) نے روایت کیا ہے۔ ا س کی سند میں ایک راوی ’’یحییٰ بن العلاء‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: یہ کذاب ہے اور احادیث گھڑتا ہے۔ اسی طرح وکیع نے بھی اس کو کذاب کہا ہے اور دیگر کئی ائمہ نے اس کو ’’متروک‘‘ کہا ہے۔ حافظ ہیثمی نے اس کو یحییٰ کی بجائے ابویعلی کے شیخ جبارہ بن مغلس کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ اور یہ ان کا تساہل ہے کیونکہ انھوں نے ایک کذاب راوی کی بجائے ایک ضعیف راوی سے اس کو معلول کیا ہے۔ حدیثِ ابن عباس کو طبرانی نے ’’الدعاء‘‘ (۸۰۴) اور ’’المعجم الکبیر والأوسط‘‘ میں (جیساکہ مجمع الزوائد میں ہے) روایت کیا ہے اور اس کی سند بھی علی بن سعید کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔