کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 91
’’ارادۂ سفر کے وقت گھر میں پڑھی گئی دو رکعتوں سے بہتر اس کے اہل وعیال کے لیے دوسری کوئی چیز نہیں۔‘‘[1]
حالانکہ یہ روایت ضعیف ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
[1] میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں ان کو طبقہ سادسہ میں شمار کیا ہے اور ان کے نزدیک یہ وہ طبقہ ہے جس کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے۔ مزید تفصیل ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۱۰/ ۱۶۰) اور ’’الفتوحات الربانیۃ‘‘ میں دیکھیں۔
تنبیہ: امام نووی نے ’’الأذکار‘‘ (۱۹۴) میں ان کو صحابی کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ’’تہذیب‘‘ میں کہا ہے کہ یہ سبقتِ قلم ہے۔
اسی طرح ’’تخریج الأذکار‘‘ میں بھی ان کا رد کیا ہے جیسا کہ ابن علان نے ذکر کیا ہے۔
دوسری تنبیہ: ’’الأذکار‘‘ میں مطعم کی بجائے ’’المقطم‘‘ ہے جو کہ صحیح نہیں۔
۲۔ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ انتہائی ضعیف حدیث ہے، اس میں دو رکعت کی بجائے چار رکعت کا ذکر ہے۔ اسے حافظ عراقی نے ’’تخریج أحادیث إحیاء علوم الدین‘‘ (۲/ ۲۷۷) میں خرائطی کی ’’مکارم الأخلاق‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے اورکہا ہے کہ ا س میں ایک ایسا راوی ہے جس کا حال معلوم نہیں۔ اس کو حاکم نے بھی ’’تاریخ نیسابور‘‘ میں ’’نصربن باب‘‘ کے ترجمہ میں روایت کیا ہے اور اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی ’’تخریج الأذکار‘‘ میں۔ دیکھیں: ’’الفتوحات الربانیۃ‘‘ (۵/ ۱۰۷)
نصر بن باب متروک ہے، بلکہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اس پر جھوٹ کی تہمت لگائی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’میزان‘‘ (۴/ ۵۰)اس حدیث کو نصر نے اپنے شیخ سعید بن مرتاش سے روایت کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں اس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔ اس حدیث میں ہے کہ ان رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورۂ اخلاص {قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} پڑھی جائے مگر یہ سخت ضعیف حدیث ہے جیساکہ ذکر ہوا۔ اس سلسلہ میں بعض آثار بھی ہیں:
۱۔ علی رضی اللہ عنہ کاقول ہے: ’’جب تم گھر سے نکلو تو دو رکعت ادا کرو۔‘‘
۲۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کہیں جانے کا ارادہ کرتے تو مسجد میںجاکر دو رکعت نماز اداکرتے ۔ان آثار کو ابن ابی شیبۃ (۱/ ۴۲۴) نے روایت کیا ہے ۔ اثرِ علی رضی اللہ عنہ کی سند ضعیف ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کی سند صحیح ہے ۔