کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 88
اسی حدیث میں حضرت صخر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (( وَکَانَ اِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً أَوْ جَیْشاً بَعَثَھُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّھَارِ )) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی فوجی دستہ یا لشکر بھیجتے تو صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے۔‘‘ اور حضرت صخر غامدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راوی بیان کرتے ہیں: (( وَکانَ صَخْرٌ تَاجِراً، فَکَانَ یَبْعَثُ تِجَارَتَہٗ أَوَّلَ النَّھَارِ، فَاَثْرَیٰ وَکَثُرَ مَالُہٗ )) [1]
[1] ابن ماجہ (۲۲۳۶) ’’التجارۃ‘‘ دارمی (۲/ ۲۱۴) ’’السیر‘‘ ابن ابی شیبۃ (۱۲/ ۵۱۶) سعید بن منصور (۲۳۸۲) بیہقی (۹/ ۱۵۱، ۱۵۲) طیالسی (۱/ ۲۵۹) احمد (۳/ ۴۱۶، ۴۱۷، ۴۳۱، ۴۳۲، ۴/ ۳۸۴، ۳۹۰، ۳۹۰، ۳۹۱) عبد بن حمید ’’المنتخب من المسند‘‘ (۴۳۲) قضاعی نے ’’مسند الشہاب‘‘ (۱۴۹۱، ۱۴۹۳) میں، مزی نے ’’تہذیب الکمال‘‘ (۱۳/ ۱۲۵، ۱۲۶) میں اور ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ (۳/ ۱۷۵) میں عمارۃ بن حدید کے واسطے سے صخر غامدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ عمارہ مجہول ہے۔ اس کو ابو حاتم، ابوزرعہ، ابن السکن، ذہبی اور حافظ ابن حجر نے مجہول کہا ہے۔ اور علی بن مدینی نے بھی اس کے مجہول ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’الجرح والتعدیل‘‘ (۳/ ۳۶۲)، الکاشف (۲/ ۲۶۲) میزان الاعتدال کلاھما للذہبي، تھذیب التھذیب (۷/ ۳۶۲)۔ حافظ ابن حبان کے اس کو ’’الثقات‘‘ میں ذکر کرنے سے خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے کیونکہ ان کا مجہول راویوں سے حجت لینے کے بارے میں قاعدہ معروف ہے۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمارہ مجہول ہے لہٰذا شیخ البانی کا ’’تحقیق المشکوٰۃ‘‘ میں اس حدیث کی سند کو جید کہنا صحیح نہیں ہے مگر یہ حدیث صحیح یا حسن درجہ کی ہے کیونکہ یہ دوسری سندوں سے دیگر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ بعض حفاظ نے اس حدیث کے طُرق جمع کرنے کا اہتمام کیا تو جن صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے ان کی تعداد بیس کے قریب پہنچ گئی۔ (فتح الباري: ۶/ ۱۱۴) ان صحابہ میں علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ ان کی حدیث کو ابن ابی شیبۃ، ابو یعلی (۴۲۵) (۴۲) بزار (۱۲۴۸) اور عبداللہ بن احمد نے ’’زوائد المسند‘‘ (۱/ ۱۵۳، ۱۵۴، ۱۵۵، ۱۵۶) میں روایت کیا ہے۔ بقیہ احادیث کی تخریج کے لیے ’’مسند الشہاب‘‘ (۲/ ۳۴۱، ۳۴۳) اور ’’مجمع الزوائد‘‘ (۴/ ۶۴، ۶۵) دیکھیں۔