کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 79
کی آمیزش تک نہ ہو کیونکہ صحیح مسلم و سنن ترمذی اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی مروی ہے: (( أَیُّھَا النَّاسُ! اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ، وَلَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّباً، وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہٖ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ: ٰٓیاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِِنِّی بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ} [المومنون: ۵۱] وقال: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ} [البقرۃ: ۱۷۲] )) ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے اورصرف حلال وپاک مال کو ہی قبول کرتا ہے۔ اور اللہ نے مومنوں کو بھی وہی حکم فرمایا ہے جو انبیاء ورسل کو فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: اے میرے رسولو! پاکیزہ و حلال چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، میں جانتا ہوں۔ اور ارشادِ الٰہی ہے: اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں دی ہیں وہ تم کھاؤ۔‘‘ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جس کے اوصاف یوں تھے: (( یُطِیْلُ السَّفَرَ، اَشْعَثَ، اَغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلیٰ السَّمَآئِ یَقُوْلُ: یَا رَبِّ! یَا رَبِّ! وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ، فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟ )) [1]
[1] یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ اس کو مسلم (۷/ ۱۰۰) ’’الزکاۃ‘‘ ترمذی (۲۹۸۹) ’’التفسیر‘‘ دارمی (۲/ ۳۰۰) ’’الرقاق‘‘ عبدالرزاق (۸۸۳۹) احمد (۲/ ۳۲۸) اور بیہقی نے ’’الآداب‘‘ (۴۸۴) میں روایت کیا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’جو شخص مالِ حرام سے حج کے لیے جاتا ہے جب وہ (( لَبَّیْکََ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ )) کہتا ہے توآسمان سے ایک منادی اسے نداء دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرا ’’لبیک‘‘ کہنا مقبول نہیں۔ تیرا مال حرام کا ہے، تیرا زادِ سفر اور سواری مالِ حرام سے ہے۔‘‘ (مختصراً) اس حدیث کو بزار (۱۰۷۹) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند سلیمان بن داود یمامی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ کامل ابن عدی (۳/ ۹۷۳) میں اسی معنی کی مگر مختصر ایک روایت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔ ابن عدی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔