کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 77
اگر توبہ کرلینے کے بعد اپنے آپ کو ان امور پر سختی سے پابند پائے تو سمجھ لے کہ اس کی توبہ کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ غفّار نے قبول کر لیا ہے اورا س کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے ہیں کیونکہ اس بات کی گواہی سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
(( اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ )) [1]
’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔‘‘
حقوق اور امانتوں کی ادائیگی:
اللہ کے گھر کی طرف روانگی سے پہلے دوسرے لوگوں کے حقوق اور امانتیں ادا کردے۔ کسی پر کوئی ظلم وزیادتی کی ہو تو اس سے معافی مانگے۔ کسی سے کوئی قرضہ لیا ہو ا ہو اورتاحال واجب الاداء ہو تو وہ دے کر جائے یا کم از کم لکھ کر یا ویسے ہی اپنے گھروالوں کواچھی طرح سمجھا دے کہ فلاںشخص کی فلاں چیز میرے پاس امانت ہے یا
[1] اس حدیث کو ابن ماجہ (۴۲۵۰)’’الزھد ‘‘طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۰/ ۱۸۵) اور ’’الدعا‘‘ (۱۸۰۷) میں، سہمی نے ’’تاریخ جرجان‘‘ (۳۹۹) میں، ابو نعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ (۴/ ۲۱۰) میں، قضاعی نے ’’مسند الشہاب‘‘ (۱۰۸) میں اور خطیب نے ’’الموضح‘‘ (۱/ ۲۵۸) میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے۔ اس کی سند تو منقطع ہے مگر اس کے بعض شواہد ہیں جن کی بنا پر حافظ ابن حجر اور شیخ البانی نے اس کو حسن کہاہے۔ ملاحظہ ہو: ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ‘‘ (۶۱۵-۶۱۶)