کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 76
اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ ’’جس نے حج کیا اور اس دوران اس سے کوئی شہوانی امر اور گناہ کا کام سرزد نہ ہو تووہ شخص گناہوں سے ایسے پاک ہوکر لوٹا کہ گویا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔‘‘
اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی معلوم ہواکہ دورانِ حج اِن افعال کاارتکاب کرنا نہ صرف منع ہے بلکہ کفارۂ ذنوب کی راہ میں رکاوٹ کاسبب بھی ہے اورحج کے مقبول ومبرور ہونے میں ایک مانع کی حیثیت رکھتا ہے۔
توبہ:
ہرحاجی کو چاہیے کہ سفرِ حج پر روانگی سے قبل اپنے سابقہ تمام گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اورخلوصِ نیت کے ساتھ توبہ کرلے کیونکہ سورۂ نور (آیت: ۳۱) میں ارشادِ الٰہی ہے :
{وَتُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}
’’اے ایمان والو! تم سب اللہ کی طرف تائب ہو جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
اور یاد رہے کہ پرخلوص توبہ وہ ہوتی ہے جس میں:
1۔گناہوں سے مکمل اور فوری اجتناب اختیار کیا جائے۔
2۔آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہدِ مصمم اور پختہ ارادہ کیا جائے۔
3۔سابقہ گناہوں پر ندامت وشرمندگی کا اظہار کیا جائے۔[1]
[1] صحیح حدیث میں ہے: (( الندم توبۃ )) ’’ندامت توبہ ہے۔‘‘ یہ حدیث عبداللہ بن مسعود، انس، ابوہریرہ، اور دیگر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے:
۱۔ حدیثِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن ماجہ (۴۲۵۲)’’الزھد ‘‘طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ (۱/ ۳۳) میں، حاکم (۴/ ۲۴۳) طیالسی (۲/ ۷۷) احمد (۱/ ۳۷۶، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۳۳) ابو یعلی (۴۹۶۹، ۵۰۸۱، ۵۱۲۹، قضاعی (۱۳، ۱۴) خطیب بغدادی نے ’’الموضح‘‘ (۱/ ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۰، ۲۵۱، ۲۵۵، ۲۵۷، ۲۶۰) اور مزی نے ’’تہذیب الکمال‘‘ (۹/ ۵۱۱م ۵۱۳) میں روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔ حاکم، ذہبی اور بوصیری نے بھی مصباح الزجاجۃ (۱۵۲۱) میں اس کو صحیح کہا ہے۔
۲۔ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ کو بزار (۳۲۳۹، زوائد) ابن حبان (۲۴۵۲) اور حاکم (۴/ ۲۴۳) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔
۳۔ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ (۶۹۸) میں روایت کیا ہے۔