کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 69
حج بدل: 1۔مذکورہ بالا حدیث سے جہاں جسمانی استطاعت کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص (مردوزن) مالدار تو ہو اور باقی تمام شرائطِ استطاعت بھی پوری ہوں مگر دائمی مرض و کمزوری یا کبر سنی وبڑھاپے کی وجہ سے وہ خود سفرِ حج اور ادائے مناسک کی مشقت برداشت کرنے سے قاصر ہو تو اسے اجازت ہے کہ وہ خود تو حج کے لیے نہ جائے البتہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی طرف سے کسی دوسرے کو اپنے خرچ پر حج کرنے کے لیے بھیج دے۔ اسے ’’حجِ بدل‘‘ کہا جاتا ہے۔ 2۔حجِ بدل کی مشروعیت وجواز کی ایک دلیل توحدیثِ مذکور ہے جبکہ ایک دوسری دلیل صحیح بخاری شریف میں مذکور ہے۔ جس میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : (( اَتَیٰ رَجُلٌ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَالَ: اِنَّ اُخْتِيْ نَذَرَتْ اَنْ تَحُجَّ، وَإِنَّھَا مَاتَتْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم : لَوْکَانَ عَلَیْھَا دَیْنٌ أکُنْتَ قَاضِیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاقْضِ دَیْنَ اللّٰہِ، فَھُوَ أَحَقُّ بِالْقَضَائِ )) [1] ’’ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس نے کہا: میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی مگر وہ (حج کیے بغیر ہی) فوت ہوگئی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتے؟ اس
[1] اس حدیث کو بخاری (۱۶۹۹) ’’الإیمان والنذور‘‘ نسائی (۵/ ۱۱۶) ابن خزیمۃ (۳۰۴۱) ابن الجارود (۵۰۱) بیہقی (۵/ ۱۷۹، ۶/ ۲۷۷) طیالسی (۱/ ۲۴۸) اور احمد (۱/ ۲۳۹، ۲۴۰، ۳۴۵) نے روایت کیا ہے۔ تنبیہ: صاحبِ ’’مشکوٰۃ‘‘ نے اس حدیث کو مسلم کی طرف بھی منسوب کیا ہے مگر یہ مسلم میں نہیں ہے۔