کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 68
ساتھ کوئی محرم ہوجو شریکِ حج ہو یا پھر اس کا شوہر ہو۔ ان میں سے کسی ایک کے بغیر عورت کے لیے سفرِ حج درست نہیں۔ بشرطیکہ اس عورت کے اورمکہ مکرمہ کے درمیان تین دنوں یا اس سے ز یادہ کی مسافت ہو۔
(مختصر القدوری بحوالہ جدید فقہی مسائل، ص: ۱۲۹، ۱۳۰، طبع مجلس تحقیقات اسلامی ، حیدر آباد، انڈیا)
جسمانی استطاعت:
استطاعت کی ایک قسم جسمانی استطاعت بھی ہے کہ انسان صحت مند اور تندرست و توانا ہو، یہاں تک کہ کم از کم وہ ہر قسم کی سواری، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریل گاڑی، بس، کار، اونٹ یا گھوڑے پر سوار ہوکر بآسانی سفر کرسکتا ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر خود اس کا سفرِ حج پر جانا واجب نہیںبلکہ اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص سفرِ حج وعمرہ کرے گا جیساکہ صحیحین اورسننِ اربعہ میں ہے :
(( اِنَّ امْرَأَۃً مِنْ خَثْعَمٍ قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ فَرِیْضَۃَ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ فِي الْحَجِّ اَدْرَکَتْ اَبِيْ شَیْخاً کَبِیْراً لَا یَثْبُتُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ، أَفَأَحُجُّ عَنْہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذٰلِکَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ )) [1]
’’بنو خثعم کی ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضۂ حج میرے باپ پر عائد ہوچکا ہے مگر وہ نہایت ضعیف العمر بوڑھا ہے حتیٰ کہ وہ سواری پر بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ اوریہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔‘‘
[1] اس حدیث کو مالک (۱/ ۳۵۹) بخاری (۵۱۳) مسلم (۹/ ۹۷) ابو داود (۹۔ ۱۸) ترمذی (۹۲۸) نسائی (۵/ ۱۱۸، ۱۱۹) ابن ماجہ (۲۹۰۹) دارمی (۲/ ۴۰) ابن الجارود (۴۹۷) ابن خزیمۃ (۳۰۳۰، ۳۰۳۳، ۳۰۳۶ ۳۰۴۲) بیہقی (۴/ ۳۲۸، ۳۲۹، ۵/ ۱۷۹) اور احمد (۱/ ۲۱۲، ۲۱۳، ۲۱۹، ۲۵۱، ۳۲۹، ۳۴۶، ۳۵۹) نے روایت کیا ہے۔