کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 64
(( لَا یَحِلُّ لِامْرَاَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَراً یَکُوْنُ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فَصَاعِداً إِلاَّ وَمَعَھَا اَبُوْھَا أَوِ ابْنُھَا أَوْ زَوْجُھَا أَوْ اَخُوْھَا أَوْ ذُوْمَحْرَمٍ مِنْھَا )) [1] ’’اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی ایسا سفر اکیلی اختیار کرے جو تین دن یا اس سے زیادہ کا ہو سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ اس کا باپ ،بیٹا ،شوہر ، بھائی یاکوئی دوسرامحرم ہو۔‘‘ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس طرح ہیں: (( لَا ُتسَافِرُ الْمَرْأَۃُ ثَلَاثاً إِلاَّ مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍ )) [2] ’’کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے ۔‘‘ ان احادیث سے جو مجموعی مفہوم سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اول تو ایک شب و روز کی مسافت پر ہی کوئی عورت اکیلی سفر پر نہ نکلے اوراگر مزید وسعت سے بھی کام لیاجائے توپھر تین دن یا اس سے زیادہ ایام کا سفر ہو تو عورت کے ساتھ اس کا شوہر یاکوئی محرم ہونا شرط ہے۔ اورحج تو اس سے کم مدت میں ممکن ہی نہیں کیونکہ اس کے لیے تو کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں ۔
[1] اس حدیث کومسلم (۹/ ۱۰۸) ابو داود (۱۷۲۶) ابن ماجہ (۲۸۹۸) دارمی (۲/ ۲۸۹) ابن خزیمۃ (۲۵۱۹، ۲۵۲۰) بیہقی (۳/ ۱۳۸، ۵/ ۲۲۷، ۷/ ۹۸) احمد (۳/ ۵۴ اور ابن المنذر نے ’’الأوسط‘‘ (۲/ ۳۰۶) میں روایت کیا ہے۔ [2] اس حدیث کو بخاری (۱۰۸۷ أیضاً ۱۰۸۶) مسلم (۹/ ۱۰۲) ابو داود (۱۷۲۷) ابن خزیمۃ (۲۵۲۱) بیہقی (۳/ ۱۳۸، ۵/ ۲۲۷) احمد (۲/ ۱۳، ۱۹، ۱۴۲، ۱۴۳) اور ابن المنذر نے ’’الاوسط‘‘ (۲/ ۳۰۶) میں روایت کیا ہے۔