کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 61
طاقت کی تعیین اورمفہومِ استطاعت کے سلسلے ہی میں سنن دارقطنی اور مستدرک حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے ،جس کی سند کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تلخیص میں حضرت حسن رحمہ اللہ تک صحیح قرار دیا ہے اور اسے ’’مرسل ‘‘کہا ہے اور اس کے موصول ہونے کو وہم قراردیا ہے۔ (الفتح الرباني: ۱۱/ ۴۰، مرعاۃ المفاتیح: ۲۸۶۶) اس روایت میں ہے : (( قِیْلَ: یاَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا السَّبِیْلُ؟ )) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ (ارشادِ ربانی : {مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا} میں) سبیل سے کیامراد ہے؟ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَۃُ )) [1]’’زادِ راہ اورسواری ۔‘‘
[1] حسن بصری رحمہ اللہ کی اس مرسل روایت کو بیہقی (۴/ ۳۲۷، ۳۳۰) نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث ابن عمر، ابن عباس، عبداللہ بن مسعود، جابر، عبداللہ بن عَمرو اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے موصولاً بھی مروی ہے: ۱۔ حدیثِ ابن عمر کو ابن ابی شیبہ (۴/ ۹۰) ترمذی (۳/ ۸) ابن ماجہ (۲۸۹۶) دارقطنی (۲/ ۲۱۷، ۱/ ۱۰) بیہقی (۴/ ۳۳۰)، (۵/ ۵۸، ۲۲۵) ابن عدی (۱/ ۲۲۸) عقیلی (۳/ ۳۳۲) اور شافعی نے ’’مسند‘‘ (۱۰۹) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ ۲۔ ابن عباس کی حدیث کو ابن ماجہ (۲۸۹۷) نے روایت کیا ہے۔ بوصیری نے اس کو ’’مصباح الزجاجۃ‘‘ (۱۰۲۲)میں حسن کہا ہے مگر حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص‘‘ میں اس کو ضعیف کہا ہے۔ البانی نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے اور اس میں تین علتیں بیان کی ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’إرواء الغلیل‘‘ (۴/ ۱۶۳)۔ ۳۔ حدیث ابن مسعود، جابر اور عبداللہ بن عَمرو کو دارقطنی (۲/ ۲۱۵، ۲۱۶) نے روایت کیا ہے۔ ۴۔ حدیثِ عائشہ کو دار قطنی (۲؍۲۱۷؍۸)بیہقی (۴؍۳۳۰)اورعقیلی (۳؍۳۳۲)نے روایت کیا ہے مگر ان سب احادیث میں سے کسی ایک کی بھی سند صحیح نہیں ہے بلکہ بعض کی سندیں انتہائی ضعیف ہیں، اس لیے اس حدیث کو ابن المنذر، عبدالحق اشبیلی، نووی، ابن دقیق العید، ابن حجر اور البانی نے ضعیف کہا ہے مگر امام بیہقی نے مرسل حسن بصری کے پیشِ نظر اس کو قوی کہا ہے، اسی طرح شیخ شعیب نے ’’تحقیق شرح السنہ‘‘ (۷/ ۱۴) میں کہا ہے کہ یہ حدیث کثرتِ شواہد کی بنا پر قوی ہے۔