کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 58
[1]
[1] ( طرف منسوب کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ بعد میں مجھے یہ اثر ایک دوسرے مصدر میں بھی مل گیا۔اس کو لالکائی نے ’’شرح الاعتقاد‘‘ (۱۵۶۷) میں مطر کے واسطے سے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور اس میں ’’مَاہُمْ بِمُسْلِمِیْنَ‘‘ کی بجائے ہے:’’وَاللّٰہِ مَا اُولٰٓـئِکَ بِمُسْلِمِیْنَ‘‘ ’’اللہ کی قسم وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘
اور آخر میں یہ اضافہ بھی ہے: (( وَاللّٰہِ لَوْ تَرَکُوْا الْحَجَّ لَقَاتَلْتُہُمْ کََمَا قَاتَلْتُہُمْ عَلَی الصَّلوٰۃِ وَالزَّکوٰۃِ ))
’’اور اللہ کی قسم اگر وہ حج ترک کردیں تو میں ان سے اسی طرح ہی جنگ کرونگا جس طرح کہ ان سے نماز اور زکوٰۃ (کے ترک)پر جنگ کی ہے۔‘‘
مگر اس کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ مطر کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے جیسا کہ اس کتاب کے محقق نے کہا ہے۔
’’سنن سعید بن منصور‘‘ میں یہ اثر اسی مطر ہی کے طریق سے ہے یا کہ اس میں اس کی کوئی دوسری سند ہے؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس سنن کا جو حصہ ملا ہے اور مطبوع بھی ہے وہ کتاب الفرائض ، کتاب النکاح اور کتاب الجہاد پر مشتمل ہے۔ کتاب الحج اس میں نہیں کہ مراجعہ کرکے سند دیکھی جاسکے۔
بعد میں پھر مجھے یہ اثر ایک دوسری سند سے بھی ملا مگر اس میں جزیہ وغیرہ کا ذکر نہیں بلکہ یہ الفاظ ہیں:(( عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ اَرَادَ اَنْ یُّفْرِضَ عَلیٰ أَہْلِ الْأَمْصَارِ عِدَّۃً یَحُجُّوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ فَلَمَّا رَأٰی تَسَارُعَہُمْ فِيْ ذٰلِکَ تَرَکَہُمْ ))
’’سعید بن جبیر کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ ہر علاقے میں سے لوگوں کی ایک تعداد مقرر کر دیں جو ہر سال حج کے لیے جائے لیکن جب دیکھا کہ لوگ خود ہی اس سلسلہ میں سبقت لے جا رہے ہیں تو انھوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔‘‘ان الفاظ کے بعداس میں وہ اضافہ بھی ہے جو لالکائی کے ہاں ہے۔ اس سند سے اس کو فاکہی نے ’’اخبار مکہ‘‘ (۱؍۳۸۴) میں روایت کیا ہے اور اس کتاب کے محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس سند میں بھی انقطاع ہے کیونکہ سعید بن منصور کی ولادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریباً تئیس (۲۳) سال کے بعد ہوئی ہے۔