کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 56
(( تَعَجَّلُوْا اِلَی الْحَجِّ [یَعْنِي الْفَرِیْضَۃَ] فَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَا یَدْرِيْ مَا یَعْرِضُ لَہٗ مِنْ مَرَضٍ اَوْحَاجَۃٍ )) [1]
[1] اس حدیث کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یا عبداللہ سے فضل نے یا فضل نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔ یہ شک بعض راویوں کی طرف سے ہے۔ اوریہ صحیح حدیث ہے، اس کو احمد (۱/ ۲۱۴، ۳۱۴، ۳۲۳، ۳۵۵) ابن ماجہ (۲۸۸۳) طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۸/ ۲۸۷۔ ۲۸۸، ۲۹۶) میں، فاکہی نے ’’أخبارِ مکۃ‘‘ (۱/ ۳۸۴) میں، بیہقی (۴/ ۳۴۰) اور خطیب نے ’’الموضح‘‘ (۱/ ۴۰۷) میں روایت کیا ہے۔ لیکن یہ سند ابو اسرائیل اسماعیل بن خلیفہ کی وجہ سے ضعیف ہے مگر طبرانی (۱۸/ ۲۸۸) میں اس کی سند کی متابعت موجود ہے۔ اس سند میں ایک راوی عبدالکریم ہے۔ یہ عبدالکریم اگر عبدالکریم الجزری ہیں تو یہ سند حسن درجہ کی ہے غالباً یہ عبدالکریم جزری ہی ہیں کیونکہ اس حدیث کو عبدالکریم سے روایت کرنے والا ’’فرات بن سلمان الجزری‘‘ ہے۔ فرات کو ابن ابی حاتم نے ’’الجرح والتعدیل‘‘ (۷/ ۸۰) میں ذکر کیا ہے اور اپنے والد ابو حاتم سے اس کے بارے میں یہ کلمات نقل کیے ہیں: ’’لَابَاْسَ بِہٖ، مََحلُّہٗ الصِّدْقُ، صَالِحُ الْحَدِیْثِ‘‘اس سند کے باقی سب راوی ثقہ ہیں اگر عبدالکریم، عبدالکریم بن ابی المخارق نہیں بلکہ عبدالکریم الجزری ہوں۔ اس حدیث کی ابن عباس سے ایک دوسری سند بھی ہے مگر اس سند کے الفاظ مختصر ہیں اور وہ ہیں:
(( مَنْ اَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتعَجَّلْ )) ’’جو حج کا ارادہ رکھتا ہے اسے جلدی کرنی چاہیے۔‘‘ان الفاظ سے اس کو ابو داود (۱۷۳۲) دارمی (۲/ ۲۸) حاکم (۱/ ۴۴۸) بیہقی (۴/ ۳۴۰) احمد (۱/ ۲۲۵) اور عبد بن حمید نے ’’المنتخب من المسند‘‘ (۷۲۰) میں اور دولابی نے ’’الکنی‘‘ (۲/ ۱۲) میں روایت کیا ہے۔
اس سند میں ابن عباس سے راوی ’’مہران ابو صفوان‘‘ ہے، اوریہ مجہول ہے جیساکہ ’’تقریب‘‘ (۲/ ۲۷۹) میں ہے۔ شیخ البانی نے ’’إرواء الغلیل‘‘ (۹۹۰) میں اسرائیل اور مہران والی دونوں سندوں کو ملا کر اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ ان کے پیش نظر اگر عبدالکریم والی سند بھی ہوتی تو غالباً وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے۔
حاصل کلام: اس حدیث کی سب سندوں کو ملا لینے سے یہ حدیث صحیح ہے۔