کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 55
’’اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں نے اپنے بندے کوجسمانی صحت اورمالی وسعت عطاکی مگر پھر بھی پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ میرے پاس (حج کے لیے) نہیں آتا تو ایسا آدمی (فضائل وبرکات سے) یقینا محروم ہوتا ہے۔‘‘ سنن ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، مسند احمد اور سنن بیہقی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اَلْحَجُّ مَرَّۃً ، فَمَنْ زَادَ فَتَطَوُّعٌ )) [1] ’’فرض حج صرف ایک مرتبہ ہے، جو زیادہ کرے وہ نفل ہے ۔ ‘‘ فریضۂ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنا: جب کوئی اتنی رقم اور وسائل کا مالک ہو جائے کہ وہ حج کرسکتا ہے تو اسے حکم ہے کہ وہ فوراً اس فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائے، کیونکہ مسند احمد میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
[1] اس حدیث کو ابو داود (۱۷۲۱) نسائی (۵/ ۱۱۱) ابن ماجہ (۲۸۸۶) دارمی (۲/ ۲۹) ابن ابی شیبہ (۴/ ۸۵) دارقطنی (۲/ ۲۷۸، ۲۸۰) حاکم (۱/ ۴۴۱، ۴۷۰) بیہقی (۴/ ۳۲۶۔ ۵/ ۱۷۸) احمد (۲۵۵۱، ۲۹۰، ۲۹۱، ۳۵۲، ۳۷۰، ۳۷۱، ۳۷۲) اور عبد بن حمید نے ’’المنتخب من المسند‘‘ (۶۷۷) میں ابو سفیان کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔ حاکم نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ ابن الجارود (۴۱۰)، دارمی ، طیالسی (۱؍۲۰۲) اور احمد (۱؍۲۹۲،۳۰۱،۳۲۵) نے اس کو عکرمہ کے واسطے سے بھی ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ اس سے بھی ابو سفیان کی روایت کی تائید ہوتی ہے۔