کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 50
’’تین قسم کے لوگ اللہ کے وفد (مہمان) میں ہیں: جہاد، حج اور عمرہ کرنے والے۔‘‘
قابلِ رشک زندگی اورقابلِ فخر موت :
حاجی کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر شرف و ثواب سے نوازا ہے کہ اس کا جینا بھی قابلِ رشک ہے اور اس کی موت بھی قابلِ فخر واعزاز ہے۔ صحیح بخاری ومسلم شریف میں مروی ہے کہ میدانِ عرفات میں ایک شخص اونٹنی سے گرا اور جانبر نہ ہوا بلکہ اس کی روح پرواز کر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اسے بیری کے پتوں والے پانی سے غسل دو اور انھیں احرام کے کپڑوں میں کفن دے دو۔ اس کے سر کو ڈھانپو اور نہ ہی اسے خوشبو لگاؤ۔‘‘
پھر فرمایا:
(( فَاِنَّہٗ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُلَبِّیاً )) [1]
’’کیونکہ یہ قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ یہ ’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ پکار رہا ہوگا۔‘‘
رمضان میں عمرہ:
عموماًدیکھاجاتا ہے کہ صاحبِ استطاعت لوگ ماہِ رمضان المبارک میں اکثر عمرے کے لیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل یہی ہے کہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت رمضان المبارک کے مہینے میں عمرے کاثواب بہت زیادہ ہے۔ رمضان میں عمرہ کی
[1] اس کو بخاری (۱۲۶۵، ۱۲۶۸، ۱۸۳۹، ۱۸۴۹، ۱۸۵۱) ’’الجنائز وجزاء الصید‘‘ مسلم (۸/ ۱۲۶، ۱۳۰) ’’الحج‘‘ ابو داود (۳۲۳۸، ۳۲۴۱) ’’الجنائز‘‘ ترمذی ’’الحج‘‘ (۹۵۱) نسائی (۴/ ۳۹، ۵/ ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۹۵، ۱۹۷) ’’الجنائز والحج، ابن ماجہ ’’مناسک ‘‘ (۳۰۸۴) وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔