کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 44
ارتکاب نہ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو عنداللہ مقبول ہوجائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے وہ حج مراد ہے جس میں ریا وشہرت، فحاشی اورلڑائی جھگڑانہ کیا گیا ہو۔ اورکچھ اہلِ علم کاکہنا ہے کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ اس سے آدمی پہلے کی بہ نسبت بہترہو کر لوٹے اورگناہ کی کوشش نہ کرے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایساحج جس کے بعد انسان دنیا سے بے رغبت اورآخرت کا طلبگار بن جائے۔ جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ حج کے مفہوم میں یہ سبھی امور شامل ہیں۔‘‘
(مرعاۃ المفاتیح: ۶/ ۱۹۰، طبع مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ پاکستان)
گناہوں سے مکمل طہارت:
کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو فریضۂ حج سے سبکدوش ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اورسابقہ گناہوں سے مکمل طورپر پاک ہوکر لوٹتے ہیں جیسے کوئی نوزائیدہ بچہ جنم لیتے وقت اس دنیا میں گناہوں سے پاک آتا ہے، جیساکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( مَن حَجَّ ، فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفسُقْ رَجَعَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدتْہُ اُمُّہٗ )) [1]
[1] اس حدیث کو بخاری (۱۵۲۱، ۱۸۱۹، ۱۸۲۰) ’’الحج‘‘ مسلم (۹/ ۱۱۹) ترمذی (۸۱۱) نسائی (۵/ ۱۱۴) دارمی (۲/ ۳۱) ابن خزیمۃ (۲۵۱۴) بیہقی (۵/ ۶۷، ۲۶۱، ۲۶۲) اور احمد (۲/ ۲۲۹، ۲۴۸، ۴۱۰، ۴۸۴، ۴۹۴) نے روایت کیا ہے۔
تنبیہ: بحشل الواسطی نے ’’تاریخ واسط‘‘ (۱۸۲) میں اور دار قطنی (۲/ ۲۸۴، ۲۱۳) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور ان کے ہاں اس میں ’’اَوِ اعْتَمَرَ‘‘ (یا جس نے عمرہ کیا) اس کا اضافہ بھی ہے مگر یہ اضافہ صحیح نہیں کیونکہ اس اضافے کو روایت کرنے والے حجاج بن ارطاۃ ہیں اور یہ بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں کہا ہے۔یہی اضافہ ایک دوسرے طریق (سند) میں بھی ہے، اس طریق سے اس حدیث کو عقیلی (۴/ ۳۳۸) اور ابو نعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ (۷/ ۱۴۳) میں روایت کیا ہے مگر اس طریق میں بھی یہ اضافہ صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایک راوی ہشام بن سلیمان ہے۔ اس کی جو حدیث ابن جریج سے نہ ہو اس میں اس کو وہم ہوتا ہے جیساکہ عقیلی نے کہا ہے، اور یہ حدیث اس نے ابن جریج سے نہیں بلکہ ثوری سے بیان کی ہے۔ نیز اس سے اس حدیث کی سند میں بھی غلطی ہوئی ہے جیساکہ عقیلی نے صراحت کی ہے، اسی لیے ذہبی نے ’’میزان‘‘ (۴/ ۲۹۹) میں کہا ہے کہ اس نے یہ حدیث عجیب سند سے روایت کی ہے اور ابو نعیم نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہِشام اسے بیان کرنے میں منفرد ہے اور اس نے لفظ ’’الاعتمار‘‘ بڑھا دیا ہے۔