کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 43
بخاری ومسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: (( أَیُّ الْعَمَلِ اَفْضَلُ؟ )) ’’سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ )) ’’اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘ کہاگیا کہ اس کے بعد ؟ تو ارشادہوا: (( اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ )) ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( حَجٌّ مَبْرُوْرٌ )) [1]’’حجِ مقبول۔‘‘ حج مبرور ۔۔۔؟ علماء کرام نے ’’حج مبرور‘‘ کی شرح بیان کرتے ہوئے متعدد آراء کا اظہار کیاہے۔ چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی رحمہ اللہ ’’القِری لقاصد أم القُریٰ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا
[1] اس حدیث کو بخاری (۲۶، ۱۵۱۹) ’’الایمان والحج‘‘ مسلم (۲/ ۷۲) ’’الایمان‘‘ ابوعوانہ (۱/ ۶۲) نسائی (۵/ ۱۱۳، ۶/ ۱۹) ’’الحج والجہاد‘‘ اور ’’الایمان‘‘ (۸/ ۹۳، ۹۴) میں اس کا پہلا ٹکڑا، دارمی (۲/ ۲۰۱) ’’الجہاد‘‘ ابن حبان (۱۵۳۔ تحقیق الشیخ شعیب) بیہقی (۵/ ۲۶۲، ۹/ ۱۵۷) اور احمد (۲/ ۲۶۴، ۲۶۸، ۲۶۹) نے سعید بن المسیب کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس کو ترمذی (۱۶۵۸) ’’فضائل الجہاد‘‘ طیالسی (۱/ ۲۰۲، ۲۳۲) اور اسی طرح احمد (۲/ ۲۵۸، ۲۸۷، ۳۴۸، ۴۴۲، ۵۲۱) نے بھی ابو ہریرہ سے دو اور واسطوں سے بھی کچھ لفظی فرق سے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث عبداللہ بن حُبشی، عبداللہ بن سلام، عمروبن العاص اور عائشہ یاشفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے مگر خوفِ طوالت سے ان کی احادیث کی تخریج ترک کی جاتی ہے۔