کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 391
(( اَلْعَجْوَۃُ مِنَ الجَنَّۃِ وَھِيَ شِفَائٌ مِنَ السُّمِّ )) [1]
[1] یہ صحیح حدیث ہے۔ اسے ترمذی (۲۰۶۸) ’’الطب‘‘ نسائی نے ’’سنن کبری‘‘ میں جیسا کہ ’’تحفۃ الاشراف‘‘ (۲/ ۱۸۹) میں ہے۔ ابن ماجہ (۳۴۵۵) ’’الطب‘‘ دارمی (۲/ ۳۳۸) ’’الرقائق‘‘ احمد (۲/ ۳۰۱، ۳۰۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۸۸، ۴۲۱، ۴۹۰، ۵۱۱) اور ابویعلی (۶۴۰۷) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے ایک راوی ابوبشر جعفر بن ایاس نے اس کو ابو ہریرہ کی بجائے ابو سعید خدری اور جابر سے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’ابن ماجہ‘‘ (۳۴۵۳) جبکہ ایک جماعت: مطرالوراق، قتادۃ، عباد بن منصور، جعفر بن ابی وحشیۃ، عقبۃ الاصم اور خالد الحذاء نے ابو ہریرہ کہا ہے۔
بعض روایات میں جعفر بن ایاس نے بھی ان کی طرح اس حدیث کو ابوہریرۃ سے ہی روایت کیا ہے: ملاحظہ ہو: ’’مسند طیالسی‘‘ (۱/ ۳۴۵) ’’مسند احمد‘‘ (۲/ ۳۰۱، ۴۸۸) اور ’’مسند ابو یعلی‘‘ (۶۳۹۸) اور صحیح بھی یہی ہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ سے ہے۔ مزی نے بھی ’’تحفۃ الاشراف‘‘ (۲/ ۱۸۹، ۱۰/ ۱۱۲، ۱۱۳) میں اسی کو صحیح کہا ہے۔ اسی طرح ’’مصباح الزجاجہ‘‘ (۱۲۰۲) بھی دیکھیں۔اس حدیث کی سند میں شہربن حوشب ہیں اور یہ مختلف فیہ ہیں مگر یہ حدیث اپنی دوسری سند اور شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ ابن ابی شیبہ (۵/ ۳۶) نے اس کو ابوہریرہ سے ایک دوسری سند سے بھی روایت کیاہے جس میں عباد بن منصور ہے، حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں اس کو ’’صدوق‘‘ کہا ہے جبکہ ذہبی نے ’’الکاشف‘‘ میں اسے ضعیف کہا ہے مگر یہ اپنی دونوں سندوں کی بنا پر حسن درجہ کی ہے اور درج ذیل شواہد کی تائید سے صحیح حدیث ہے۔ ان شواہد میں رافع بن عمرو المزنی رضی اللہ عنہ اور بریدۃ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں ہیں:
۱۔ رافع بن عمرو کی حدیث کو احمد (۳/ ۴۲۶، ۵/ ۱۶، ۶۵) ابن ماجہ (۳۴۵۶) طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۵/ ۱۸/ ۴۴۵۶، ۴۴۵۷) میں اور حاکم (۴/ ۱۲۰، ۲۰۳) نے روایت کیا ہے۔اس کی سند شواہد میں حسن درجہ کی ہے۔ حاکم، ذہبی اور بوصیری نے ’’مصباح الزجاجہ‘‘ (۱۲۰۳) میں اس کو صحیح کہا ہے۔۲۔ بریدہ کی حدیث کو احمد (۵/ ۳۴۶، ۳۵۱) نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ’’صالح بن حیان القرشی‘‘ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
زہیر بن معاویہ نے ’’صالح بن حیان‘‘ کی بجائے اس کو ’’واصل بن حیان‘‘ کہا ہے اور یہ ان سے غلطی ہوئی ہے جیسا کہ کبار ائمہ نے صراحت کی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’تہذیب الکمال‘‘ (۱۳/ ۳۳، ۳۴) اور ’’تہذیب التھذیب‘‘ (۴/ ۳۳۸)