کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 388
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کے تحت اس حدیث کے علاوہ حضرت عمر فاروق، عبداللہ بن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی بعض دیگر تفسیری روایات بھی ذکر کی ہیں جو ابن جریر، مسند احمد اور مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے ہیں؛ جن سے دورانِ حج تجارت ومزدوری کے جائز ہونے کا پتہ چلتاہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۲۸۵، اردو)
جوازِ تجارت پرسورئہ حج کی آیت (۳۸) سے بھی استدلال کیا جاسکتاہے جس میںارشاد ہے:
{لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ} [الحج: ۳۸]
’’تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لیے (یہاں رکھے) ہیں۔‘‘
معروف مصری فاضل سید سابق نے بھی فقہ السنہ میںمذکورہ سابقہ حدیث کے علاوہ سنن ابو داود، بیہقی، دارقطنی اور سنن سعید بن منصور کی احادیث نقل کی ہیں جو دورانِ حج تجارت کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ (فقہ السنۃ: ۱/ ۶۴۱)
بذل المجہود شرح ابی داود (مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ اللہ ) کے حواشی میںامام ابن قدامہ سے نقل کرتے ہوئے معروف حنفی عالم اور مصنفِ ’’تبلیغی نصاب‘‘ (نیا نام ’’فضائلِ اعمال‘‘) مولانا محمد زکریا سہارن پوری رحمہ اللہ نے لکھاہے:
’’اس پر امتِ اسلامیہ کا اجماع ہے کہ حج کے دوران کسبِ معاش کے لیے صنعت وتجارت یا مزدوری کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
(بذل المجہود: ۸/ ۳۰۹)
الغرض اللہ تعالیٰ نے {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ} فرما کر کہ ’’تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیاہے کہ بہتر تو یہی ہے کہ اس سے بچا جائے۔
(فقہ السنہ ۱/ ۶۴۱۔حاشیہ۔ جدید فقہی مسائل از مولانا خالد سیف رحماني، ص:۱۳۰ طبع حیدر آباد۔ انڈیا)
ہاں! اگر مقصد بنائے بغیر ضمنی طور پر ہو تو اجازت ہے۔ غرض کہ اس کا مدار