کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 387
اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآنِ کریم کامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جائز قرار دیاہے جیسا کہ سورئہ بقرہ میںمناسکِ حج بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
{لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ}[البقرۃ: ۱۸۹]
’’(اگرحج کے ساتھ ساتھ) تم اپنے رب کا فضل (رزق) بھی تلاش کرتے جاؤ تو اس میںکوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی ایک قراء ت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی ذکر کی ہے کہ اس میں ’’فِيْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں جو ترجمۂ آیت کو واضح کردیتے ہیں۔ اس آیت کے نزول کا پسِ منظر یہ ہے کہ اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں لوگوں نے موسمِ حج میں تجارت ومزدوری کو اصل اور مستقل مقصود بنا لیا ہوا تھا۔ منیٰ میں بازار لگتے، نمائشیں قائم ہوتیں اور مارکیٹنگ کی گرما گرمی ہوتی تھی۔ اسلام نے جب حج میںملائی ہوئی جاہلانہ رسوم کو مٹایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوچا کہ شاید تجارت ومزدوری بھی مکمل طور پر ممنوع ہوگئی، تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ شروع میں لوگ حج کے دوران منیٰ وعرفات میں لگنے والے بازاروں (عکاظ، مجنّہ اور ذوالمجاز) میں خریدوفروخت کرتے تھے۔ پھر وہ احرام کی حالت میں خرید وفروخت کرنے سے ڈر گئے (کہ کہیں یہ گناہ نہ ہو) اس پر اللہ نے یہ آیت اتاری۔[1]
[1] بخاری (۱۷۷۰) اسی طرح اس کو بیہقی (۴/ ۳۳۳) اور الواحدی نے ’’اسباب النزول‘‘ (۳۸) میں عمرو بن دینار کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ابو داود (۱۷۳۱، ۱۷۳۴، ۱۷۳۵) ابن خزیمہ (۳۰۵۴) حاکم (۱/ ۴۴۹، ۴۸۱، ۴۸۲) اور بیہقی (۴/ ۳۳۴) نے اس کو دوسرے واسطوں سے بھی ابن عباس سے روایت کیا ہے۔