کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 385
ثانیاً: اگرعلیٰ وجہ التنزّل مشار الیہ حدیث کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی اس سے یہ مفہوم تو ہرگز نہیں لیا جاسکتاہے کہ یہ آٹھ روزہ قیامِ مدینہ فرض یا واجب ہے اور نہ ہی اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ حج کا کوئی رکن یا حصہ ہے لہٰذا جیسا بھی موقع ملے اور جتنی کچھ گنجائش نکلے اسی کے مطابق اس قیام کو کم وبیش کیا جا سکتا ہے اور اس سے حج پربھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ثالثاً: رہا معاملہ جہنم کے عذاب اور نفاق سے براء ت حاصل کرنے کے جذبے کا تو یہ عین اسلامی ہے اور ہر مسلمان میں ہر جگہ رہتے ہوئے ہونا چاہیے اور اس کا حصول اس مشار الیہ حدیث سے بدرجہا قوی حدیث کی رُو سے عام حالات میں حتیٰ کہ اپنے وطن اور گھرمیں رہتے ہوئے بھی ممکن ہے۔ ع
کوئی راہ روِ منزل تو ہو!
چنانچہ ترمذی شریف میں مرفوعاً اور موقوفاً مروی ہے:
(( مَنْ صَلَّـٰی لِلّٰہِ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا فِيْ جَمَاعَۃٍ، یُدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْاُوْلَیٰ، کُتِبَتْ لَہٗ بَرَائَ تَانِ بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ وَبَرَائَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ )) [1]
’’جس نے چالیس دن تمام نمازیں باجماعت تکبیرِ اول کے وقت مل کر ادا کیں اس کے لیے دو چیزوں: نارِجہنم اور نفاق، سے براء ت لکھ دی جاتی ہے۔‘‘
اس حدیث کے متعدد طُرق ذکر کرنے کے بعد محدثِ عصر علّامہ البانی رحمہ اللہ نے لکھاہے:
[1] ترمذی (۲۴۱) اسی طرح اس حدیث کو ابن ماجہ (۷۹۸) ابن عدی (۲/ ۸۱۰، ۳/ ۸۹۱) دولابی نے ’’الکنی‘‘ (۲/ ۵۰) میں، بحشل الواسطی نے ’’تاریخ واسط‘‘ (۶۲، ۶۵، ۶۶) میں اور خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۷/ ۹۶، ۱۴/ ۲۸۸، ۲۸۹) میں روایت کیا ہے۔ یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بعض راویوں نے اس کو مرفوع اور بعض نے انس رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بھی بیان کیا ہے مگر اس کی سند ضعیف اور منقطع ہے۔