کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 384
غالباً اِسی روایت کے پیشِ نظر اکثر حجاج مدینہ شریف میں آٹھ دن قیام کرنے پر مصرّ ہوتے ہیں۔ اولاً: یہ روایت ہی صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للألباني: ۱/ ۳۶۶) بعض اہلِ علم نے اس روایت کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کیاہے کہ جس سے اس روایت کے قوی ہونے کا شبہ ہوتاہے۔ مثلاً علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد (۴/ ۸) میں کہا ہے کہ اس روایت کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ مسجدِ حرام کے ایک فاضل مدرس شیخ المعصومی نے المشاہدات المعصومیۃ (ص۲۰) میں اس کی توثیق کی ہے۔ امام منذری رحمہ اللہ نے الترغیب (۲/ ۱۳۶) میں اس کی تصحیح کی ہے اور دورِ حاضر کے معروف عالم سید سابق نے فقہ السنہ (۲/ ۱۱۲) میں اسے امام احمد وطبرانی کی طرف منسوب کرکے اس کی سند کو صحیح کہا ہے لیکن یہ سب تسامحات ہیں کیونکہ اس روایت کا ایک راوی نبیط بن عمرو ہے جس سے امام بخاری ومسلم حتیٰ کہ اصحاب سنن نے کوئی روایت نقل نہیں کی۔ اس راوی کو امام ابن حبان کا ثقہ قرار دینا بھی ان کے معروف اصول ’’توثیق المجھولین‘‘ کے تحت ہے جسے دیگر محدثین کرام نے قبول نہیں کیا۔ علاوہ ازیں کسی محدث کا کسی حدیث کے بارے میں ’’رجالہ ثقات‘‘ یا ’’رجالہ رجال الصحیح‘‘ کہہ دینا بھی اس کے صحیح السند ہونے کیلئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ رواۃ کے ثقہ اور صحیح کے رواۃ ہونے کے باوجود اس کی سند میں انقطاع اور ارسال کا خدشہ باقی رہتاہے۔ (للتفصیل: الضعیفۃ: ۱/ ۳۶۶، تمام المنۃ في التعلیق علیٰ فقہ السنہ لسید سابق مؤلفہ الشیخ الألباني مقدمہ، فائدہ نمبر: ۴، ۵، ۶، ص: ۱۹۔۲۷، ماہنامہ محدّث لاہور جلد: ۱۹ شمارہ: ۶ بابت جمادیٰ الثانیۃ ۱۴۰۹ھـ بمطابق جنوري ۱۹۸۹ء ص: ۷۔ ۲۷ مقالہ شیخ غازی عزیر)