کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 379
بدعات کی مذمت تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسے ہی بہت کی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و ائمہ عظام رحمہ اللہ اور بعد کے علماء نے بھی ان کی سخت مذمت کی ہے۔ اگر ایسے افعال کا ارتکاب خاص مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا جائے تو ظاہر ہے کہ یہ معاملہ انتہائی خوف ناک انجام کا سبب بن سکتا ہے، جس کا اندازہ اسی سے کیاجاسکتاہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( مَنْ اَحْدَثَ فِیْھَا مُحْدَثاً اَوْ اٰویٰ مُحْدِثاً، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَآئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ وَلا عَدْلٌ )) [1]
’’جس نے اس (مدینہ منورہ) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پراللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو ،اس سے اس کی کوئی توبہ و فدیہ یا فرضی و نفلی عبادت قبول نہ کی جائے گی۔‘‘
4۔مسجدِ قباء:
مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں قیام کے دوران مسجدِ قباء میں کسی وقت دو رکعتیں بھی پڑھ لیں کیونکہ سنن ترمذی ونسائی و ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(( مَنْ تَطَھَّرَ فِيْ بَیْتِہٖ، ثُمَّ أَتَیٰ مَسْجِدَ قُبَائَ فَصَلَّـٰی فِیْہِ صَلَـٰوۃً کَانَ لَہٗ کَأَجرِ عُمْرَۃٍ )) [2]
[1] یہ حدیث علی سے مروی ہے اور اس کے شروع میں (( الْمَدِیْنَۃُ حَرَامٌ مَا بَیْنَ عَیْرٍاِلٰی ثَوْرٍ )) کے الفاظ بھی ہیں۔ اس کو بخاری (۱۸۷۰) ’’فضائل المدینہ‘‘ مسلم (۹/ ۱۴۳) ’’الحج‘‘ ابو داود (۲۰۳۴) ’’الحج‘‘ ترمذی (۲۱۲۷) ’’الولاء والھبۃ باب، ماجاء فیمن تولی غیر موالیہ۔۔۔‘‘ بیہقی (۵/ ۱۹۶) طیالسی (۲/ ۲۰۳) احمد (۱/ ۸۱، ۱۲۶، ۱۵۱) ابویعلی (۲۶۳، ۲۹۶) ابو نعیم نے ’’الإمامۃ والخلافۃ‘‘ (۱۸۸) میں اور اللالکائی نے ’’شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ‘‘ (۱۸۹) میں روایت کیاہے۔
[2] ان الفاظ سے یہ حدیث سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کو نسائی (۲/ ۳۷) (