کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 376
اور احکام شریعت حصہ سوم میں لکھتے ہیں:
’’بلاشبہ غیرِ کعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اور غیرِ خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے۔‘‘
(بحوالہ تعلیمات شاہ أحمد رضا خان بریلوي، ص: ۱۹، از مولانا محمد حنیف یزداني رحمه اللّٰه، طبع مکتبہ نذیریہ، لاہور)
اسی طرح مقتدر علماء ومحقّقینِ احناف (دیوبندی مکتبِ فکر) نے بھی مذکورہ امور کو ناجائز گردانا ہے۔ چنانچہ حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ ’’شرح مناسک الحج‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ لَا یَطُوْفُ أَيْ لَا یَدُوْرُ حَوْلَ الْبُقْعَۃِ الشَّرِیْفَۃِ لاَِنَّ الطَّوَافَ مِنْ مُخْتَصَّاتِ الْکَعْبَۃِ اَلْمُنِیْفَۃِ فَیَحْرُمُ حَوْلَ قُبُوْرِالْاَنْبِیَائِ وَالْاَوْلِیَائِ، وَلَا عِبْرَۃَ بِمَا یَفْعَلُہٗ الْجَھَلَۃُ، وَلَوْکَانُوْا فِيْ صُوْرََۃِ الْمَشَائِخِ وَالْعُلَمَائِ ‘‘
’’(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مقدّس کے ) بقعۂ شریفہ کے گرد طواف نہ کیا جائے کیونکہ یہ طواف صرف کعبہ شریف کاہی خاصہ ہے۔ پس انبیاء واولیاء کی قبور کے گرد طواف کرنا حرام ہے۔ اور اُن جاہلوں کے فعل کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا جو کہ بظاہر مشائخ وعلماء ہی نظر آتے ہیں۔ (اور ان افعال کا ارتکاب کرتے ہیں)۔‘‘
ایسے ہی معراج الدرایۃ (ص: ۱۲۴) اور عینی شرح ہدایہ (۲/ ۱۳۶) پر مذکور ہے:
’’ لَوْطَافَ حَوْلَ مَسْجِدٍ سِوَیٰ الْکَعْبَۃِ الشَّرِیْفَۃِ یُخْشَیٰ عَلَیْہِ الْکُفْرُ‘‘
’’ اگر کعبہ شریف کے سوا کسی مسجد کابھی طواف کرلیا تو اس میں کفر کا خطرہ ہے۔‘‘
شرح عین العلم میں علامہ قاری لکھتے ہیں:
’’ لَا یُمَسُّ اَيْ الْقَبْرُ، وَلَا التَّابُوْتُ وَلَا الْجِدَارُ، فَوَرَدَ النَّھْيُ