کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 371
2۔حجرئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : مدینہ طیبہ ہی وہ شہر ہے جہاں سرورِ کائنات ، سیدالمرسلین، امام الانبیاء، امامِ اعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرئہ طیبہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرامگاہ اور قبرِ مقدس ہے۔ جہاں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تحیۃ المسجد پڑھ لینے کے بعد بہ صد ہزار جان درود و سلام پڑھنا چاہیے۔ 3۔روضۂ شریفہ: مدینہ طیبہ ہی وہ شہر ہے جس میں ’’روضۂ شریفہ‘‘ ہے؛ جس کے بارے میں صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَا بَیْنَ بَیْتِيْ وَمِنْبَرِيْ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ )) [1] ’’میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی قطعۂ ارضی جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مقام کو ’’روضہ‘‘ کا نام دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور منبر کے مابین والی جگہ ہے جس کے ستونوں پر سفید سنگِ مرمر لگا کر نمایاں اور ممتاز کیا گیاہے کیونکہ باقی ستون وہاں سرخ سنگِ مرمر کے ہیں لیکن آج اِس مقام کو تو ’’روضہ‘‘ کے نام سے شاید تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں۔ عوام الناس تو صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مقدس پرمشتمل حجرئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی روضۂ شریفہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ
[1] یہ حدیث متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، جن میں سے ابوہریرہ اور عبداللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہما بھی ہیں: ۱۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بخاری (۱۱۹۶، ۱۸۸۸) مسلم (۹/ ۱۶۲) اور ترمذی (۳۹۱۵، ۳۹۱۶) ’’المناقب‘‘ وغیرہ میں ہے۔ ۲۔ حدیث عبداللہ بن زید کو مالک (۱/ ۱۹۷) بخاری اور مسلم وغیرہ نے روایت کیاہے۔