کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 369
آدابِ زیارتِ مدینہ طیبہ یوں تو ’’طوافِ وداع‘‘ کے ساتھ ہی حج و عمرہ کے تمام مناسک (فرائض وواجبات) پورے ہوجاتے ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کوئی کمی یا نقص باقی نہیں رہ جاتا۔ مدینہ طیبہ، مسجدِ نبوی و حجرئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور روضۂ شریفہ کی زیارت حج و عمرہ کا حصہ یا رکن تو نہیں ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اس مقدّس سفر کے دوران مدینہ طیبہ جانا ہی نہیں چاہیے۔ تکمیلِ حج کے بعد مدینہ طیبہ بھی جائیں کیونکہ یہی وہ شہر ہے جہاں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض دیگر مقامات مقدسہ واقع ہیں۔ 1۔مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : اِس میں نماز پڑھنے کی نیت کرکے اور حصولِ ثواب کی غرض سے شدِّ رحال (سفر کرنا) موسمِ حج اور غیر موسمِ حج ہر وقت ہی جائز ہے جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم اور ابو داود میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( لَاتُشَدُّ الرِّحَالُ اِلاَّ اِلَیٰ ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِيْ ھٰذَا وَالْمَسْجِدُ الْاَقْصَیٰ )) [1]
[1] یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے جن میں ابوہریرہ اور ابوسعید خدری بھی ہیں: ۱۔ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بخاری (۱۱۸۹) مسلم (۹/ ۱۶۷، ۱۶۸) ابو داود (۲۰۳۳) اور نسائی (۲/ ۳۷، ۳۸) ’’المساجد‘‘ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ ۲۔ حدیثِ ابو سعید خدری کو بھی بخاری ومسلم (۹/ ۱۰۴- ۱۰۶) ’’باب سفر المراۃ مع محرم إلی حج وغیرہ‘‘ اور ترمذی (۳۳۶) ’’الصلوۃ‘‘ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔