کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 356
………………………………………[1]
[1] تو اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ اگر یہ الطلحی نہیں بلکہ کوئی دوسرا ہے تو کون ہے؟ واللہ اعلم۔ ۵۔ واثلۃ بن الأسقع کی حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۲/ ۸۱/ ۱۹۷) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ ۶۔ حدیث وابصۃ بن معبد کو بھی طبرانی (۲۲/ ۱۴۷/ ۳۹۹) نے ہی روایت کیا ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ یہ حدیث مسند احمد (۳/ ۱۵۳) میں انس رضی اللہ عنہ سے اور ’’سنن نسائی‘‘ (۸/ ۲۳۰، ۲۳۱) ’’آداب القضاء، باب ’’الحکم باتفاق أھل العلم‘‘ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ حدیثِ انس کی سند جید ہے اسی طرح حدیثِ ابن مسعود کی بھی سند جید ہے۔ امام نسائی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث جیدہے‘‘ حاصلِ کلام: مذکورہ احادیث میں سے حدیثِ حسن بن علی کی ایک سند صحیح ہے۔ اسی طرح حدیثِ ابن عمر کی ایک سند جید ہے اور باقی جو ان کے دوسرے طُرق اور شواہد ہیں، ان سے بھی اس حدیث کی صحت کی تائید ہوتی ہے۔