کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 355
کرے توبھی کوئی مضائقہ نہیں۔ (التحقیق والإیضاح، ص: ۲۳) میقات سے احرام باندھنے کے بعد حرم شریف کی طرف روانہ ہوں تو بڑے بچے خود تلبیہ کہتے جائیں اور چھوٹے بچوں کی طرف سے ان کے سرپرستوں کا انھیں احرام کے حکم میں داخل کرتے وقت کہا ہوا تلبیہ ہی کافی ہے۔ طہارت کی تمیز نہ رکھنے والے اور شیر خوار بچوں کو پیمپر لگا لیا جائے یا پھر پلاسٹک کے نیکر ملتے ہیں جن میں عام کپڑا رکھا جاتاہے۔ اس طرح ان کی طرف سے اطمینان ہوجائے گا۔ جب سلس البول والے بڑوں کو اس کی اجازت ہے تو بچوں کو بالاولیٰ ہوگی۔ حرم تک پہنچنے پر گزشتہ صفحات میں بتائے گئے آداب وطریقہ سے حرم شریف اور مسجد حرام میں داخل ہوں۔ جو بچے طہارت کی تمیزرکھتے ہیں ان کا باوضو ہونا ضروری ہے کیونکہ طواف کیلئے طہارت شرط ہے۔ بڑے بچے تو طواف وسعی خود چل کر کریں جبکہ چھوٹے بچوں کو خود اٹھاکر یا سواری پر بٹھا کر طواف وسعی کروالی جائے۔ خود اٹھاکر طواف وسعی کرانے کی شکل میں کیا یہ طواف وسعی بچے اور اسے اٹھانے والے شخص، دونوں کی طرف سے کافی ہوگی یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہلِ علم کی آراء مختلف ہیں لہٰذا افضل تو یہ ہے کہ پہلے خود طواف وسعی کریں اور پھر مستقل طور پر بچے کو طواف وسعی کرا لیں۔ (یا پھر اپنے ساتھ ساتھ ہی کرائے کی سواری پر بچے کو بٹھا کر طواف وسعی کرالیں۔ اس طرح دونوں کی طرف سے طواف وسعی ہو جائیں گے) اور اسی میں احتیاط ہے۔ کیونکہ یہ عبادت کا معاملہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سنن ترمذی و نسائی، مسند احمد اور طبرانی میں ارشاد ہے: (( دَعْ مَایُرِیْبُکَ اِلَیٰ مَا لَا یُرِیْبُکَ )) [1]
[1] یہ صحیح حدیث ہے۔ اس کو حسن بن علی، ابن عمر، انس، نعمان بن بشیر، واثلۃ بن الأسقع اور وابصۃ بن معبد رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے: ۱۔حدیثِ حسن بن علی کو ترمذی (۲۵۱۸) ’’صفۃ القیامۃ‘‘ نسائی (۸/ ۳۲۷۔ ۳۲۸) ’’الأشربۃ، باب الحث علی ترک الشبھات‘‘ دارمی (۲/ ۲۴۵) ’’البیوع، باب دع ما یریبک‘‘ ابن خزیمۃ (۲۳۴۸) ابن حبان (۵۱۲) طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۳/ ۷۵، ۷۶، ۷۷/ ۲۷۰۸، ۱۱/ ۲۷۰) میں، حاکم (۲/ ۱۳، ۴/ ۹۹) عبدالرزاق (۴۹۸۴) طیالسی (۱/ ۲۵۹) احمد (۱/ ۲۰۰) ابو یعلی (۶۷۶۲) اور ابو نعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ (۸/ ۲۶۴) میں مختلف طُرق سے برید بن ابی مریم سے اور انھوں نے ابو الحوراء کے واسطے سے حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور یہ سند صحیح ہے۔ اس کو ترمذی، ابن خزیمۃ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے بھی صحیح کہاہے۔ابوالشیخ نے ’’طبقات المحدثین‘‘ (۱/ ۴۷) میں اس حدیث کو محمد بن عبدالوہاب کے واسطے سے بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے مگر یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ’’ابوغالب نضربن عبداللہ‘‘ ہے اور یہ مجہول ہے جیسا کہ ’’تقریب‘‘ میں ہے۔ ۲۔حدیثِ ابن عمر کو طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ (۱/ ۱۹) میں، قضاعی نے ’’مسند الشھاب‘‘ (۶۴۵) میں، بیہقی نے ’’الزھد‘‘ (۸۶۵) میں اور خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۶/ ۳۸۶) میں عن طریق عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر روایت کیا ہے اور یہ حدیث ابن عمر سے مالک عن نافع کے طریق سے بھی مروی ہے مگر اس طریق سے یہ ضعیف ہے۔ اس طریق سے بھی اس کو طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ (۱/ ۲۰۱) میں، ابونعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ (۶/ ۳۵۲) میں اور خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۲/ ۲۲۰، ۳۸۷) میں روایت کیا ہے۔ ۳۔حدیثِ انس کو احمد (۳/ ۵۳) نے روایت کیاہے۔ اس کی سند میں ایک راوی ابو عبید اللہ الاسدی ہے اگر یہ ثقہ ہے تو اس کی سند صحیح ہے۔ یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے اور اس موقوف کی سند جید ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا۔ ابن عدی (۱/ ۲۰۶) نے اس کو ایک دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے مگر یہ سند سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں احمد بن ہارون ہے اور یہ متہم ہے۔ ۴۔نعمان بن بشیر کی حدیث کو ابو الشیخ نے ’’طبقات المحدثین‘‘ (۴/ ۳۰۰) میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی صالح بن موسیٰ ہے، اگر یہ صالح بن موسیٰ الطلحی ہے (