کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 350
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (( مَا اَخَالُ أَحَداً یَعْقِلُ یَرْمِيْ حتَّیٰ تَطْلُعَ الشَّمْسُ )) [1] ’’میرا خیال ہے کہ کوئی بھی عقلمند ایسا نہیں ہوسکتا کہ (یوم النحرکو) طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی رمی کرلے۔‘‘ برصغیر پاک وہند کے عظیم محدّث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری نے مشکوٰۃ شریف کی جامع ترین شرح مرعاۃ المفاتیح میں علامہ ابن عبدالبر کی شرحِ مؤطا ’’التمہید‘‘ کے حوالے سے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے پہلے خلیفہ بلافصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت (جس کی سند میں کلام ہے) نقل کی ہے: (( أَنَّہٗ طَافَ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ فِيْ خِرْقَۃٍ )) [2]
[1] ابو داود (۱۹۴۰) نسائی (۵/ ۲۷۰، ۲۷۱) ابن ماجہ (۳۰۲۵) بیہقی (۵/ ۱۲۲) طیالسی (۱/ ۲۲۳) اور احمد (۱/ ۲۳۴، ۳۱۱، ۳۴۳) نے اس کو حسن العرفی کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے، اور ترمذی (۸۹۳) نے اس کو مقسم کے واسطے سے ابن عباس سے روایت کیاہے۔ یہ حدیث تعدّدِ طُرق کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ (۲۹۲) میں بھی ذکر ہوا ہے۔ ’’مَااَخَالُ‘‘ یہ الفاظ ابن ماجہ اور بیہقی میں ہیں۔ [2] اس اثر کو عبدالرزاق (۵/ ۷۰/ ۹۰۲۶) ابن ابی شیبہ (۷/ ۲۵۱ دار التاج) ’’کتاب الاوائل‘‘ ابن ابی عاصم نے ’’الاوائل‘‘ (۱۲۱) میں اور فاکہی نے ’’اخبارِ مکۃ‘‘ (۱/ ۳۰۱) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف اور متن منکر ہے۔ سند ضعیف اس لیے کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے اور متن منکر اس لیے کہ واقدی نے کہا ہے کہ یہ غلط ہے کیونکہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبداللہ بن زُبیر رضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد مدینہ میں سب سے پہلے مولود ہیں اور مکہ ان دنوں دارِ حرب تھا، ان دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی مکہ میں داخل ہوا۔ حافظ ابن حجر واقدی کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: ’’میں کہتاہوں کہ ممکن ہے کہ طواف سے مراد ان کو اِدھر اُدھر لے کر پھرنا ہو، اگر ایسے نہیں تو پھر واقدی نے جوبات کہی ہے وہ درست ہے کیونکہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) جب سے مکہ سے ہجرت کرکے آئے اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرۃ القضاء میں ہی مکہ میں داخل ہوئے تھے اور اس وقت ان کے ساتھ ابن زُبیر رضی اللہ عنہ نہ تھے۔ (الاصابۃ: ۳/ ۳۰۲)